Pages

Friday, December 13, 2013

صیہونیت سرزمین مقدس میں مغرب کا کاشت کردہ پودا

ڈاکٹر محسن محمد صالح
اردو استفادہ محمد زکریا خان
صیہونیت کا آغاز: صہیونی تحریک جس نے اپنے لیے فلسطین میں قومی وطن کے وجود پر زور دیا۔ اس تحریک کے برپا ہونے میں متعدد اسباب کار فرما رہے ہیں۔ اس تحریک کا آغاز یورپ کے عیسائی ماحول میں ہوا خصوصاً جن دنوں پر وٹسنٹ عیسائیوں کی تحریک زوروں پر تھی۔ یہ سولہوی صدی کا زمانہ تھا۔ اسی طرح یورپ میں قوم پر ستانہ تحریکیں اور وطن پر ستانہ تحریکوں نے صہیونی تحریک کے پختہ ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے خاص طور پر انیسوی صدی کی قوم پر ستانہ اور وطن پر ستانہ تحریکیں ۔
مشرقی یورپ میں صیہونیت کے فروغ میں خاص طور پراس قضیے نے اہم کردار ادا کیا ہے جسے یہودیوں کی سیاسی اصطلاح میں’مسئلہ یہود‘(Jewish question)کہا جاتا ہے۔ اسی طرح روس میں یہودیوں کی نسل کشی نے بھی صہیونی تحریک کے برپا ہونے میں ا ہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں یہودیوں کا بڑھتا ہوا اثر ونفوذ اور دوسری طرف یہوودیوں میں ’تحریک تنویر ‘(Reform Judaism ؛یہودی عقائد میں ایسی لچک پیدا کرنا جو یورپ کے لیے قابل قبول ہو یعنی ایمانیات کو سماجی مسئلے سے زیادہ اہمیت نہ دینا) کی نا کامی بھی صیہونیت کے فروغ میں مدد گار رہی ہے۔
مغربی استعمار کی سازش: مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ متعدد اغراض کے لئے عالم اسلام کے بیچ میں یہودی ریاست کا قیام عمل میں لانا چاہتے تھے۔ اس چھوٹی مگر خطر ناک ریاست سے ایک طرف عالم اسلام کے دوبازو جدا ہو گئے ایک طرف افریقہ کے مسلم ممالک تھے تو دوسری طرف ایشیاءکے مسلم ممالک اور ان کے بیچوں بیچ صہیونی ریاست جو انہیں کاٹنے کیلئے بنائی گئی تھی۔ صہیونی ریاست مسلم خطوں کی وحدت میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ اس سازش کی وجہ سے عالم اسلام میں متحدہ قوت کے ابھرنے اور ترقی کے امکانات کے سامنے ایک دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔ مسلم ممالک صرف کنزیو مر( صارفین) ہیں اور صہیونی ریاست مغربی مال کی مشرق میں فروخت کی گزرگاہ۔صہیونی ریاست کے ناسور کی وجہ سے عظیم اسلامی وحدت جنم نہیں لے پائی ہے جو اس ریاست کی غیر موجودگی میں قدرتی طور پر عثمانی خلافت کے سقوط کے خلاءکو پر کرسکتی تھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ عظیم تر اسلامی وحدت میں رکاوٹ عالم اسلام کے بیچ میں صہیونی ریاست کا قائم رہنا ہے۔ یہ جغرافیائی اور نظریاتی وحدت جس میں رکاوٹ صہیونی وجود ہے اُس وقت تک اپنے طبعی انضمام کو نہیں پہنچ سکتی جب تک صہیونی ریاست کو مٹا نہیں دیا جاتا ۔
صیہونیت کے مقاصد: صہیونی تحریک کی بنیاد اگست 1897ءمیں سوئٹزر لینڈ میں تھیوڈور ہرتشل کے ہاتھوں رکھی گئی تھی۔ تحریک کے بانی نے روز اول سے اس تحریک کو استعماری مقاصد کےلئے بنا یا تھا جس کا مقصد مغربی ممالک کے اہداف پورے کرنا تھا۔ تمام تر چالاکی کے باوجود یہ تحریک پہلی جنگ عظیم تک کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کرپائی تھی۔ صہیونی تحریک ایک نسل پر ستانہ تحریک ہے جس کی رگوں میں مذہبی قومی عناصر پائے گئے ہیں۔ اس تحریک کے پروان پانے کا انحصار اس اصول پر رکھا گیا ہے کہ فلسطین کے اصل باسیوں کے کتنے حقوق چھین کر نو واردوں کو دیے جا سکتے ہیں۔ ایک دفعہ صہیونی تحریک کی رکنیت حاصل
کرنے کے بعد مذہبی یہودی اور سیکولر یہودی میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ جب تک کوئی یہودی صہیونی تحریک کا رکن ہے وہ انہی مقاصد کی تکمیل میں اپنی صلاحیتیں کھپائے گا جس کیلئے صہیونی تحریک برپاکی گئی ہے ۔
فلسطین پر برطانوی انتداب: برطانیہ نے 1917ءمیں اعلان بالفور کے اعلامیے کے ساتھ فلسطین میں صہیونی قومی ریاست کی بنیاد رکھی۔ ستمبر 1918ءمیں برطانیہ نے خطے پر قبضہ مکمل کرتے ہوئے فلسطینی اراضی کا ایک حصہ صیہونیوں کو دے دیا۔ اس سے پہلے برطانیہ عرب شیوخ سے معاہدہ کرکے خطے میں داخل ہوا تھا کہ وہ عرب ریاستوں کو مکمل آزادی اور خود مختاری دے گا۔ یہ معاہدہ برطانیہ نے عربوں کے متحدہ نمائندے الشریف حسین سے کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے ایک بڑے حصے پر قبضے کے بعد برطانیہ نے کسی معاہدے کا پاس خیال نہ کیا اور عربوں کو کبھی آزادی اور خود مختاری حاصل نہ ہوسکی۔ معاہدہ سائکس پیکو کے ذریعے مشرق وسطیٰ بشمول عراق اور وسیع ترشام فرانس اور برطانیہ کے اثرو نفوذ کے درمیان چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم کردیا گیا۔ 1916ءمیں سائکس پیکو (Sykes Picot Agreement) معاہدے کے تحت فلسطین کو بین الاقوامی خطہ قرار دیا گیا۔ پھر اس کے بعد دوسرے معاہدے سان ریموکانفرنس؛San Remo ( اپریل 1920) کے تحت فلسطین پر بین الاقوامی خطے کی بجائے برطانیہ کے انتداب کے حق کو تسلیم کرلیا گیا جسے مئی 1922ءمیں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کرلیا ۔
صیہونیت کے لیے برطانیہ کی خدمات: برطانیہ نے فلسطین پر اپنے انتداب کے دوران میں( 1918ء۔ 1948ء) یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ یہودی آباد کاری میں اضافہ ان اعدادو شمار سے لگا یا جاسکتا ہے کہ 1918ءمیں فلسطین میں صرف( 55000)پچپن ہزار یہودی تھے اور 1948ءمیں نقل پزیر ہو نے والے یہودیوں نے یہودی آبادی کو( 646000)چھ لاکھ چھیالیس ہزارتک بڑھا دیا۔ یعنی پہلے یہودی کل آبادی کا آٹھ فیصد تھے اور اس کے بعد ان کی آبادی کا تناسب تھا 31.7فیصدتھا۔ اسی طرح برطانیہ نے فلسطینی اراضی کی یہودیوں کو فروخت کے کئی طریقے نکال لیے۔ برطانیہ کے انتداب سے پہلے یہودی کل اراضی کے دو فیصد کے مالک تھے اور کچھ ہی عرصہ کے بعد یہودی 6.7فیصد اراضی کے مالک ہو گئے۔ یہ اراضی یا تو سرکار کی طرف سے الاٹ ہوئی یا پھر فلسطین میں موجود غیر فلسطینیو ں نے یہ اراضی فروخت کی تھی۔ زمین کی خریداری پر یہودیوں کی طرف سے پرکشش قیمت پر بھی غریب فلسطینی اپنی اراضی نہ بیچتے تھے۔ تیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود فلسطین کے اصل باشندے 93.3 فیصد اراضی کے مالک تھے اورفلسطینی آبادی کا تناسب 68.3 فیصد تھا ۔
برطانیہ نے نوواردوں کےلئے متعدد اقتصادی ‘ سیاسی اور تعلیمی اور عسکری پراجیکٹ بنائے ۔ 1948ءتک برطانیہ کی طرف سے 292یہودی خیمہ بستیاں تعمیر پاچکی تھیں۔صیہونی ستر ہزار فوج کیل کانٹے سے لیس تھی اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے آزاد ملک ہونے کا اعلان کردیا ۔
مکمل تحریر >>

فلسطین۔۔۔ اور یہود کا دعوائے زمین!!!

ڈاکٹر محسن محمد صالح
اردو استفادہ محمد زکریا خان
ارض فلسطین کے اولین باشندے: علم تاریخ کی رو سے خطہ فلسطین کو جس قوم نے سب سے پہلے آباد کیا تھاوہ جزیرہ عرب سے نقل مکانی کرنے والے کنعانی تھے۔ یہ تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ کنعانیوں نے یہاں اپنی ثقافت اور طرز زندگی کو رائج کیا۔ تاریخ کے اس دور میں یہ خطہ ’ ارض کنعان ‘ کہلاتا تھا۔ جہاں تک موجودہ فلسطینی آبادی کا تعلق ہے تو یہ نسل بھی کنعان کے سلسلے سے ہے یا پھر ان اقوام کے اختلاط سے ان کا تعلق ہے جو بحیرہ روم کے مشرقی علاقوں میں آبادتھے جنہیں اس وقت ’بلست‘ یا ’ فلستی‘ کہا جاتا تھا یا پھر دوسرے عرب قبائل کے سلسلے سے جا کر ان کا نسب ملتا ہے جو ارض کنعان میں آباد ہو گئے تھے۔ سیاسی لحاظ سے فلسطین پر مختلف قوموں کی حکمرانی رہی ہے لیکن فلسطین کو بغیر کسی انقطاع کے آباد رکھنے والی ایک ہی قوم رہی ہے جو کہ خود فلسطینی ہیں ۔
ظہوراسلام کے بعد فلسطینیوں کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی اور وہاں کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بھی عربی زبان بن گئی۔ 15ہجری سے لے کر تادم تحریر فلسطین کی ایک ہی شناخت اسلام رہی ہے اور تاریخ کے اس طویل ترین عرصے میں اسلام کے علاوہ ان کی اور کوئی شناخت نہیں رہی۔اسلامی شناخت میں اس سے بھی فرق نہیں پڑا کہ وہاں کی اصل آبادی کا ایک حصہ یہودیوں کے جبر کی وجہ سے 1948ءمیں دوسرے ممالک میں ہجرت پر مجبور کر دیا گیاتھا۔
صیہونیوں کا جھوٹا دعویٰ: یہودیوں کا یہ دعویٰ کہ وہ بھی تاریخ قدیم سے اس سر زمین کے آباد کار رہے ہیں، تاریخی حقائق اس دعوے کو جھٹلاتے ہیں۔ فلسطینی تو اس سر زمین کی آباد کاری میں گزشتہ پندرہ سوسال سے مصروف کار ہیں جبکہ اسرائیل کا جبری قیام تو آج کی بات ہے۔ یہ درست ہے کہ تاریخ کے ایک حصے میں بنو اسرائیل کو فلسطین کے بعض حصوں میں حکومت کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ وہ بھی فلسطین کے بعض حصوں میں نہ کہ پورے فلسطین میں۔ یہ کوئی چار سو سال کا عرصہ بنتا ہے؛ خاص طور پر584قبل مسیح سے لے کر 1000قبل مسیح تک۔ اس کے بعد بنو اسرائیل ارض کنعان سے نقل پزیر ہو گئے ۔ 1948ءتک انہیں اپنا ’آبائی وطن ‘ یاد ہی نہ رہا!
دراصل فلسطین کے بعض حصوں میں بنو اسرائیل کی حکمرانی کی وہی حیثیت ہے جو اس سر زمین میں دوسرے نو واردوں کی حکمرانی کی ہے۔ فلسطین میں دوسرے خطوں کی اقوام آکر حکمرانی کر جا یا کرتی رہی ہیں لیکن اس خطے کو جو قوم مسلسل آباد رکھے ہوئے ہے اور جو اسے اپنا وطن سمجھتی ہے وہ صرف ایک ہی قوم ؛فلسطینی رہی ہے۔ بنو اسرائیل کی فلسطین میں حکمرانی کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں جتنی دوسری غیر قوموں کی فلسطین پر حکمرانی ۔جیسے آشوری عہد یا فارس کی حکمرانی؛ مصر کے فراعنہ کی حکمرانی یا یونانیوں اور رومیوں کی فلسطین پر حکمرانی ۔ ہر حاکم قوم کا اقتدار بالآخر زوال پزیر ہوا اور فلسطینیوں کا وطن جیسے پہلے اہل فلسطین کے پاس تھا انہیں کے پاس رہا ۔
فلسطینی اپنی سر زمین چھوڑ کر کہیں نہ گئے۔ وہ اپنے وطن میں ہی میں آباد رہے ۔ اسلام قبول کرلینے کے بعدوہ پھر کسی اور دین میں داخل نہ ہوئے۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ فلسطین میں اسلام کی حکمرانی کا عرصہ سب سے طویل بارہ صدیوں پر مشتمل رہا۔ فلسطین کی تاریخ میں صرف 90برس کی قلیل مدت ایسی ہے جس میں عیسائیوں کو صلیبی جنگوں میں سے ایک معرکے میں فتح پانے پر حکمرانی کا موقع ملا ۔
جہاں تک یہودیوں کا تعلق ہے تو وہ فلسطین میں عارضی قیام کے بعد ایسے تارک خطہ ہو ئے کہ اٹھارہ سو سال تک انہیں یہاں کا خیال ہی نہیں آیا۔ سنہ 135عیسوی تا بیسوی صدی کے طویل عرصے کے دوران میں فلسطین کی سر زمین یہودیوں کے وجود سے خالی رہی؛ سیاسی لحاظ سےبھی؛ ثقافتی لحاظ سے بھی؛ اور عمر انی لحاظ سے بھی۔ یہی نہیں یہودیوں کی مذہبی تعلیمات میں فلسطین کی طرف ان کا لوٹنا حرام ٹھہرا یا گیا ہے ۔
یہودیوں کے معروف رائٹر آرتھر کوسٹلر نے جو معلومات جمع کی ہیں انکی رو سے 80فیصد یہودی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے یہودیوں کا کوئی رشتہ ارض فلسطین سے نہیں بنتا۔ اسی طرح بنی اسرائیل کی بھی فلسطین سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ یہاں ہم معزز قارئین کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہودی مذہب کے ماننے والوں کی موجودہ اکثریت نسلی طور پر اسرائیل ( یعقوب علیہ السلام) کی نسل سے نہیں ہے بلکہ انہیں ’یہود خزر ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نسل بنی اسرائیل سے نہیں۔’یہود خزر‘ ترکی نسل کے تاتاری قبائل سے ہیں جن کا وطن قوقاز (کوکیشیا) کا شمالی علاقہ رہا ہے۔ اس نسل کے لوگ آٹھویں صدی عیسوی میں یہودی ہو گئے تھے۔ اگر یہودی مذہب کے پیرو کاروں کو کہیں لوٹنے اور اپنا وطن بنانے کا حق ہے تو وہ ارض فلسطین نہیں بلکہ روس کا جنوبی علاقہ ہے۔
یہودیوں کا یہ دعویٰ کہ ان کا موسیٰ علیہ السلام کے وقت فلسطین سے تعلق ہو گیا تھا حقیقی لحاظ سے غیر ثابت شدہ دعویٰ ہے۔تاریخی لحاظ سے یہ بات ثابت ہے کہ بنو اسرائیل کی اکثریت نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ فلسطین کی طرف ( غزوے کے لئے ) چلنے سے انکار کردیا تھا ۔بابل ( عراق ) میں جب انہیں نقل مکانی کرنا پڑی تو اس کے بعد جب فارس کی فلسطین پر عملداری قائم ہوئی تو فارس کے حکمران’ خورس‘ نے انہیں فلسطین جانے کی اجازت دے دی تھی لیکن بیشتر یہود نے عراق رہنے کو ہی ترجیح دی اور واپس لوٹنے سے انکار کردیا۔ علاوہ ازیں، دنیا کی طویل تاریخ سے لے کر اب تک کبھی بھی ارض فلسطین میں یہودیوں کی آبادی کا تناسب باقی دنیا میں پھیلے ہوئے یہودیوں کی کل آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ نہیں رہا ۔
مکمل تحریر >>

فلسطین پر ’یہودی حق‘ کا ڈھکوسلہ سیکولر بنیادوں پر بھی ثابت نہیں ہوتا

حامد کمال الدین hamid@eeqaz.org
فلسطین مسئلہ مغرب اور عالم اسلام کے مابین پائے جانے والے حالیہ تنازعات میں ’ام المسائل‘ کا درجہ رکھتا ہے، ’امنِ عالم‘ کے بہت سے لاینحل عقدوں کی جڑ درحقیقت یہیں پر پائی جاتی ہے، بلکہ عالم اسلام کی کئی اور جنگیں ایک معنیٰ میں اسی جنگ کی پیدا کردہ ہیں؛ ایشیا تا افریقہ مسلمانوں پر آج جو جنگیں مسلط کی جارہی ہیں ان کے پیچھے بڑی حد تک یہی مقصد کارفرما ہے کہ ارضِ مقدس میں یہودی مفادات کو کسی طرح محفوظ بنا دیا جائے…. لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ارضِ فلسطین پر ’یہودی حق‘ کا ڈھکوسلہ ہمارے سامنے واضح ہوجائے۔
فلسطین پر ’یہودی حق‘ کا دعویٰ یا تو ’مذہبی‘ بنیاد پر ہوسکتا ہے اور یا پھر ’قومی و تاریخی‘ بنیاد پر۔ آج ’اقوام متحدہ‘ کے دور میں ’مذہب‘ کو بنیاد بنا کر کسی سرزمین پر دعویٰ کرنااور ہنستے بستے باشندوں کو وہاں سے اٹھا کر چلتا کرنا دنیا کے پڑھے لکھوں کے ہاں کہاں تک ایک ’معقول حرکت‘ کہی جانے کے قابل ہے، محتاجِ بیان نہیں۔ پھر بھی ہم وہ امت ہیں جو کسی مسئلہ کی ’دینی‘ بنیادوں کو، اگر وہ حق ہوں، سب سے پہلے تسلیم کرنے والے ہیں۔ زمین اللہ کی ہے اور وہ جسے چاہے اس کا وارث بنا دے۔ البتہ ہم ہی وہ امت ہیں جو یہود کی مذہبی جعلسازیوں کا پول کھول دینے کیلئے بھی پوری پوری قدرت اور اہلیت اور مستند علمی مصادر اپنے پاس رکھتے ہیں، اور اس پہلو سے بھی ہم ہی دنیا کو وہ حقیقت منکشف کر کے دے سکتے ہیں جسے یہود کی کذب بیانی نے تحریف زدہ کر کے، پچھلی ایک صدی سے، امنِ عالم کو تہس نہس کر دینے کی بنیادبنا رکھا ہے۔ حق یہ ہے ’فلسطینی مسلمان‘ کے ہوتے ہوئے ارضِ قدس پر یہود نہ تو کوئی ’مذہبی‘ حق رکھتے ہیں اور نہ ’قومی و تاریخی‘۔
سیکولر دنیا کی بابت سمجھا جاتا ہے کہ وہ ’قومی و تاریخی‘ حق کو ہی اقوام کے ’دعوائے زمین‘ کی بابت درخور اعتنا سمجھتی ہے، لہٰذا ہم بھی مسئلۂ فلسطین کے قومی وتاریخی پہلو پر ہی پہلے کچھ بات کریں گے، اس کے بعد (آئندہ مضمون میں) یہود کے مذہبی دعویٰ کو روشنی تلے لائیں گے۔
٭٭٭٭٭
دس ہزار سال قبل مسیح میں فلسطین یقینا ایک بستا ہوا ملک تھا، مگر یہ ’ماقبل تاریخ‘ دور اپنی تفصیلات کے معاملہ میں آج نامعلوم ہے۔ دس ہزار سال قبل مسیح کے بعد ادوار کو نطوفی Natufian تہذیب کا دور کہا جاتا ہے مگر ’نطوفیوں‘ کی اصل کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ یہاں اریحا کا تاریخی شہر جو ایک اندازے کے مطابق نو ہزار سال پرانا ہے، اسی تہذیب کے نشانات میں شمار ہوتا ہے۔
کوئی پانچ ہزار سال کے لگ بھگ کی بابت یہ البتہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جزیرۂ عرب سے وقفے وقفے کے ساتھ بہت سے انسانی مجموعے فلسطین کے زرخیز خطوں کی جانب نقل مکانی کر آئے تھے۔ جزیرۂ عرب کے یہ مختلف النسب گروہ، جن میں سامی نسل کے قبائل بھی تھے اور کنعان بن حام کی نسل سے بھی، عمومی طور پر ایک ہی نام سے جانے گئے۔ یا پھر اس پورے دور کو ہی کنعانی دور کہا گیا۔ اس لحاظ سے اس خطہ کے ساتھ عربوں کا تعلق تب سے ہے جب سے تاریخ، انسانی وثائق کا حصہ بننے لگی۔ بائبل کا صحیفہ ’پیدائش‘ جگہ جگہ ارضِ فلسطین کو کنعانیوں کا ملک مانتا ہے، جہاں پر اسحاق اور پھر یعقوب علیہما السلام کو رہنے کیلئے کچھ زمین میسر آئی۔ خود
اسرائیلی، زبان، ثقافت اور رہن سہن کے لحاظ سے ’کنعانیوں‘ کے رنگ میں رنگے گئے۔کنعانیوں نے اس ملک میں 119 شہر قائم کئے، گو یہ واضح ہے کہ کنعانی تہذیب نے بابلی، آرامی، اور فینیقی تہذیب سے بہت کچھ لیا اور اس پر بہت کچھ اضافہ کیا۔
کنعانیوں کے علاوہ یہاں مصریوں نے بے شمار نشانات چھوڑے ہیں۔ بارہ سو سال قبل مسیح یہاں جزیرۂ کریٹ سے فلستی قوم آتی ہے اور غزہ کے جنوبی ساحل کے ساتھ ساتھ بسنے لگتی ہے۔ بعد ازاں دیگر کئی ایک شہروں میں پھیل جاتی ہے۔ کچھ ہی دیر بعد، یہ بھی کنعانی ثقافت کا ہی حصہ بن جاتی ہے۔فلستیوں کے آنے سے یہ خطہ اور بھی ترقی کرتا ہے۔
اسی دوران ہی یہاں ’عبرانیوں‘ کا ایک نہایت چھوٹا خانوادہ آتا ہے۔ بنی اسرائیل کی کل بارہ فیملیاں۔ بلکہ یوسف علیہ السلام کا بیاہ مصر میں جاکر ہوتا ہے۔ تب یہ پورا گھرانہ مصر جا بیٹھتا ہے۔ ’زمین کے مالک‘ جو ہوتے ہیں وہ اس کو چھوڑ کر نہیں جاتے!
انکے ہاں کسی وقت کہا جاتا ہے یہ مصر سے صرف اَسی سال بعد موسیٰ علیہ السلام کی معیت میں فلسطین لوٹ آئے تھے۔ دوسری جانب کہتے ہیں، یہ واپس آئے تو چھ لاکھ تھے بلکہ مرد مرد چھ لاکھ سے اوپر تھے! 80 سال میں ’بارہ گھرانے‘ لاکھوں کو نہیں پہنچتے! یہ صدیوں مصر میں رہے۔ جب تک حقیقتِ اسلام پر قائم رہے تھوڑے ہوتے ہوئے مصر پر حکمران رہے، پھر زیادہ ہوکر غلام ہوئے؛ ان کو یہ بتانے کیلئے کہ ان کا دعویٰ قومی نہیں ہوسکتابلکہ ان کی سب خیر خدا اور اس کے نبیوں کے ساتھ وفاداری اپنا رکھنے میں ہے۔
یہ تمام تر عرصہ فلسطین البتہ فلسطینیوں سے بسا رہتا ہے!
اب واپس آتے ہیں تو نہایت مختصر عرصہ فلسطین کے چند شہروں پر حاکم رہ لینے کے بعد مقامی باشندوں کے ہاتھوں یہ پھر بے گھر کر دیے جاتے ہیں، ان کو بتانے کیلئے کہ مسئلہ ’قومی حق‘ کا ہے اور نہ ’زورِ بازو‘ کا، بلکہ خدائی مشن پورا کرنے کا ہے۔ در بدر پھرتے، تا آنکہ طالوت کے زمانے میں ان کے دن پھرتے ہیں اور خدا کے دو نبیوں داودؑ اور سلیمانؑ کا ساتھ دے کر یہ ایک عرصہ کیلئے پھر آبرومند ہوتے ہیں۔ فلسطین کے اطراف واکناف میں اس قوم کا ڈنکا بجتا ہے تو صرف خدا کے ان دو نبیوں کے زمانے میں، جوکہ لگ بھگ 1000ءتا 850ءقبل مسیح کا زمانہ ہے۔ سلیمان علیہ السلام کے رخصت ہوجانے کے بعد اس کا شیرازہ پھر بکھرنے لگتا ہے۔ ان کی مملکت دو حصوں میں بٹتی ہے۔ یہودہ اور اسرائیل۔ یہ وہ زمانہ ہے جب یہی قوم جو یہاں حق کے قیام کیلئے برپا کی گئی تھی، تاریخ کا بدترین فساد برپا کرتی ہے۔ تا آنکہ چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کا شہنشاہ بخت نصر ان پر تاریخ کی بدترین تباہی لاتا ہے۔ یہ بھاری تعداد میں ذلت کی موت مرتے ہیں اور باقی کے لوگ اسیر ہو کر بابل لے جائے جاتے ہیں، کہ قبطیوں کی بجائے اب بابلیوں کو ’غلاموں‘ کی ضرورت تھی!
فلسطین پھر اپنے باشندوں کے ساتھ آباد رہ جاتا ہے! تاآنکہ 539 ق م میں فارسی شہنشاہ سائرس ان کے لئے پروانۂ آزادی جاری کرتا ہے اور ان کو فلسطین لوٹنے کی اجازت مرحمت فرماتا ہے۔رہا یہ خطہ تو اس پر فارسی شہنشاہت، اور بعد ازاں 330 ق م میں یہاں پر سکندر اعظم کا اقتدار قائم ہوجاتا ہے۔ تا آنکہ 63 ق م میں یہاں رومیوں کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ اس سارا عرصہ البتہ اس کے باشندے وہی رہتے ہیں جو ہمیشہ سے تھے۔ اسرائیلیوں کے نکلنے سے یہ علاقہ کبھی خالی ہوا اور نہ ان کے یہاں سکونت اختیار کر جانے سے کبھی آبادیوں کے گنجان ہوجانے کی شکایت ہوئی!
چڑھتے سورج کے پجاری، یہودیوں سے رومیوں کی جتنی کاسہ لیسی ہوسکتی ہے اتنی کرتے ہیں۔ زکریا اور یحییٰ علیہما السلام ایسے انبیاءکو قتل کرتے ہیں بلکہ اپنے تئیں عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرتے ہیں۔ تا آنکہ ان کا فساد حد سے بڑھ جاتا ہے تو خدا کا کرنا رومی بھی ان پر غضب ناک ہوجاتے ہیں۔ 77 ءمیں رومی بادشاہ ٹیٹس ان پر خدا کے قہر کا کوڑا ثابت ہوتا ہے۔ رومی جی بھر کر
یہودیوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔ تب سے آج تک فلسطین میں یہودی نہیں ملتے۔ دو ہزار سال سے دربدر پھرتے ہیں۔ جبکہ فلسطین مسلسل اپنے باشندوں سے آباد رہتا ہے۔
تا آنکہ تین صدی بعد رومن خود بھی عیسائی ہو جاتے ہیں، جوکہ یہودیوں پر نئی آفت لے آنے کا ایک خوفناک پیش خیمہ بنتا ہے۔ عیسائیوں کے لئے مسیح علیہ السلام نبی نہیں بلکہ خدائی کا مرتبہ رکھتے تھے۔ اتنی بڑی اور بے دید اور طاقتور قوم کے ’خدا‘ کو مارنے والی قوم کیونکر اس کے قہر سے بچی رہ سکتی تھی؟! یہود کیلئے دنیا بھر میں کہیں پر چھپ کر بیٹھنا اب تو بالکل ہی دوبھر ہوگیا تھا۔ ’ارضِ میعاد‘ کو بھلا اب کون یاد رکھتا!؟
پس واضح رہے، ان کی دربدری نبوت محمدی کے دور سے شروع نہیں ہوئی۔ نہ ہی مسلمان اس نام نہاد ’سام دشمنی‘ سے کسی بھی دور کے اندر واقف رہے تھے۔ ہٹلر صرف آج جا کر بدنام ہوا، یورپی اقوام کی جب سے مسیحیت کے ساتھ نسبت ہوئی یہود کیلئے اسی دن سے قیامت کھڑی ہوئی رہی ہے۔ عالم عیسائیت کی یہودیوں پر یہ ’کرم فرمائی‘ بیسویں صدی تک جاری رہی۔ جو فرق اس وقت دیکھنے میں آرہا ہے اس ’چولی دامن‘ کی تاریخ چند عشروں سے زیادہ نہیں۔
غرض دورِ مسیح سے اِن کا پودا یہاں سے اکھاڑا گیا اور اس کو دوبارہ یہاں لگنا پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔
بعض تاریخ دانوں نے حساب لگایا ہے، یہودیوں کا فلسطین میں کلی اور زیادہ تر جزوی اقتدار ملا جلا کر چار سو سال سے زیادہ نہیں بنتا۔ البتہ اب دوہزار سال سے یہ مسلسل زمانے بھر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ آج جا کر ’جمہوریت‘ اور ’آزادی‘ کے اس دور میں یہ برطانیہ کے کندھوں پر سوار ہوکر فلسطین آتے ہیں اور برطانوی حمایت اور بندوق کے زور پر ایک ہنستی بستی، صدیوں سے آباد قوم سے، اپنے ’آباءکی جاگیر‘ کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں! ملک کے باشندوں کو خیمہ بستیوں میں ٹھونس دیتے ہیں اور ایک بڑی تعداد کو جلاوطن ہوجانے پر مجبور کردیتے ہیں! یورپ اور امریکہ ’ارضِ میعاد‘ میں اس یہودی درندگی پر تالیاں پیٹتے ہیں، ان کیلئے اسلحہ اور دولت کی بوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں، اقوام متحدہ کے ایوانوں میں اس ناجائز بچے کو ہر جگہ انگلی سے لگائے پھرتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح عالمی برادری اس سے مانوس ہوجائے اور اس کو ’تسلیم‘ بھی کرلے! فلسطینیوں پر یہ جتنا ظلم ڈھا لے کبھی ٹس سے مس نہ ہوں گے، جس وقت البتہ اِس ’منظورِ نظر‘ کیلئے خطہ میں کوئی مسئلہ بنتا نظر آئے تو ’قیامِ امن‘ کیلئے بھاگے چلے آئیں گے۔
یہ دو ہزار سال تک ملک ملک کی خاک چھانتے رہے۔ جبکہ فلسطین کے باشندوں نے ایک دن کیلئے اپنا ملک نہیں چھوڑا۔ فلسطین میں بسنے والی اقوام ان سے پہلے سے یہاں آباد ہیں اور اس سارا عرصہ یہیں رہتی رہی ہیں۔ بیس صدیاں پیشتر یہودیوں کو یہاں سے نکالا گیا تھا تو اس وقت بھی یہ پاپ ’فلسطینیوں‘ نے نہیں کیا تھا کہ اس کی سزا ان کو خیمہ بستیوں اور بے خانمائیوں کی صورت میں آج جا کر دی جائے۔ بیس صدیاں پہلے یورپ کے رومنوں نے ان کو یہاں سے بھگایا تھا اور اب بیس صدیاں بعد یورپ کے انگریزوں نے ان کو یہاں لا بسایا۔ صدیوں کے یہ طفیلی parasites یوں جا کر انگریز کے طفیل ایک بستے بساتے ملک کے ’وارث‘ ہوئے اور ملک کے اپنے باشندے در بدر! اقوام متحدہ کے انسانی قواعد کی روسے یہ وہاں کے رکھوالے البتہ وہ جو صدیوں سے اس گھر کے مالک رہے وہ اب ’باغی‘ اور ’دہشت گرد‘ اور ’امن کیلئے خطرہ‘!
برطانیہ بہادر جو آئرش باشندوں کو ان کا اپنا گھر اور ان کے اپنے باپ کی جاگیر واپس کرنے پر کبھی تیار نہ ہوا تھا، کس دریادلی کے ساتھ فلسطینیوں کے ملک پر پولینڈ، جرمن، آسٹریا اور بیلجئم کے یہودیوں کا حق تسلیم کررہا تھا! بالفور ڈکلیریشن کی رو سے ملکۂ برطانیہ سرزمین فلسطین پر یہودیوں کے حقِ واپسی کو کس ’احترام اور ہمدردی‘ کی نگاہ سے دیکھتی تھیں! یہی ’ہمدردی‘ کی
نظر عالمی توازنِ طاقت کے ساتھ ہی پھر برطانوی تاج سے امریکی انتظامیہ کو منتقل ہوجاتی ہے۔ ’آباءکی قبریں‘ اگر ایسی ہی کوئی دلیل ہے تو اس سے کہیں واضح حق تو پھر امریکہ پر ریڈ انڈینز کا بنتا ہے، جن کا وہاں سے ایک بڑی سطح پر اور نہایت بے رحمی کے ساتھ اور وہ بھی امریکیوں کے ہاتھوں خاتمہ ہوئے ابھی چند صدیوں سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور جوکہ ہزاروں سال تک اس ملک کے بلا شرکت غیرے مالک رہے تھے۔ کیا امریکی جو فلسطین پر اسرائیل کا ’آبائی حق‘ مانتے ہیں، خود اپنے ملک پر ریڈ انڈینز کا یہ حق بھی تسلیم کریں گے؟! اور کیا اندلس پر عربوں کا یہ حق بھی مان لیں گے، جنہیں یہاں سے نہایت ظلم اور ناانصافی کے ساتھ بے دخل ہوئے ابھی صرف پانچ سوسال ہوئے ہیں؟!
مکمل تحریر >>

فلسطین پر ’یہودی حق‘ کا ڈھکوسلہ کیا ’مذہبی بنیاد‘ پر ثابت کیا جاسکتا ہے؟

حامد کمال الدین
عرب عمومی طور پر اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کے ساتھ نسبت رکھتے ہیں، جس کیلئے اصطلاحی طور پر ’عرب مستعربہ‘ کا لفظ مستعمل ہے۔ اسرائیلؑ (یعقوب علیہ السلام کا لقب) سام کی نسل سے ہیں تو اسماعیل ؑ بھی سام ہی کی نسل سے ہیں۔ ابراہیمؑ کے حق کی بات ہے یا سامی تخم میں اگر کوئی خاص فضیلت پائی جاتی ہے تو وہ دونوں جانب برابر ہے۔ فلسطین میں آباد عربوں کی ایک بڑی تعداد اسماعیلؑ سے ہی منسوب ہے اور اس کے علاوہ وہ کسی اور نسبت سے واقف نہیں۔ مگر یہاں اگر کوئی دوسری اجناس بھی ہیں جو ابراہیمؑ کا تخم نہیں تو آج وہ ابراہیمؑ کے دین پر ہیں! ابراہیمؑ بہر حال ایک سمت اور ایک راستہ تھا: اِن اِبراھیم کان أمۃ!!!
بعثت محمدی کے ساتھ ارض فلسطین کے اندر، بلکہ دنیا کے ایک بڑے خطے کے اندر، ایک نہایت عظیم الشان فرق رونما ہوچکا تھا۔ فلسطین کے کنعانی، عیلامی، فلستی وغیرہ وغیرہ سب کی سب بت پرست اقوام تھیں، جن کے بالمقابل، قبل مسیح ادوار میں، بنی اسرائیل کو انبیاءکی معیت حاصل رہی تھی، اور اسی وجہ سے نصرت خداوندی کا استحقاق بھی۔ محمد ﷺ کہ رحمۃ للعالمین تھے، ان کنعانیوں، عیلامیوں، آرامیوں، فلستیوں، فینیقیوں اور موآبیوں سب کے لئے ذریعۂ ہدایت بن گئے اور یہ سب کی سب اقوام دین توحید کی علمبردار بنیں۔ پورا فلسطین ہمیشہ کیلئے اب اذانوں کا دیس تھا جہاں سب کے سب بت خانے ان اقوام کے اپنے ہاتھوں توڑ دیے گئے اور ان سب اقوام کو مسجد اقصیٰ میں قدم سے قدم ملا کر خدائے واحد کی بندگی کرنا اور ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سمیت سب کے سب انبیاءکے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لینا نصیب ہوا۔ دور محمدی، تاریخ کا جدید ترین عہد تھا جس کے حقائق ہی سراسر اور تھے، جبکہ یہ ظالم اسی بند ذہنی کے اسیر!!!
کس قدر ترس آتا ہے امریکہ میں جگہ جگہ بائبل کے اسٹڈی سرکلوں میں شرکت کیلئے آئے ہوئے ’خردمندوں‘ پر، جب وہ فلسطین کے حوالے سے ’اسرائیلیوں‘ اور ’کنعانیوں‘ کو آج بھی اُسی سیاق میں پڑھ رہے ہوتے ہیں جس سیاق میں کبھی انبیاءکے صحیفوں میں یہ باتیں بیان ہوئی ہوں گی! دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی، اور یہ جہاں تھے وہیں کھڑے ہیں! صرف یہودی نہیں بلکہ آج کے بنیاد پرست عیسائی بھی۔ یہ ابھی تک دنیا کو اسی یہودی آنکھ سے دیکھنے پر مصر ہیں جب فلسطین کے اندر ’غیر اسرائیلی‘ کا لفظ ’کافر‘ اور ’بت پرست‘ کا ہی مترادف ہوا کرتا تھا! امریکہ اور یورپ کے یہ سب بھلے مانس تاریخ کے اس ’میوزیم‘ سے حقائق کی دنیا میں نکل آنے کیلئے تیار ہی نہیں۔ یہ نبوتِ محمد کا زمانہ ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو سہی، باہر کتنا بڑا سورج نکل آیا ہے! فلسطین تو سارے کا سارا اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتا ہے اور ابراہیم، یعقوب، یوسف، موسیٰ، داود اور عیسیٰ علیہم السلام اور محمد ﷺ پر دل و جان سے فدا ہوتا ہے۔ اسی لئے تو خدا نے اقصیٰ والی انبیاءکی تاریخی جائے نماز پچھلے ڈیڑھ ہزار سال سے ان کے سپرد کر رکھی ہے۔ فلسطین کے نگر نگر، ڈیڑھ ہزار سال سے اذان اور تکبیراتِ خداوندی ہی کی صدا بلند ہوتی ہے۔ یہاں کا ہر ہر محلہ ہر چند ساعت بعد صفیں باندھ کر خدائے واحد کو پوجتا اور دن میں پانچ بار ابراہیمؑ کے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ انبیاءکی یہاں اب وہ عزت ہوتی ہے کہ دلوں میں بستے ہیں۔ ایک ایک کیلئے ”علیہ
السلام“ سے کم کوئی لقب نہیں۔ ہر ہر نبی کیلئے پورے فلسطین کی زبان پر درود اور تسلیمات! یہاں ’اسرائیلیوں‘ کے سوا اب ’کافر‘ کہاں!!!!؟
کل کے بت پرست کنعانی آج کے موحد، مومن، فرماں بردار، انبیاءکے پیروکار، مسجد اقصیٰ کے نمازی، قرآن کے قاری.. اور کل جو انبیاءکے نسبت یافتگان رہے تھے وہ آج انبیاءکے کافر، مسیحؑ کے منکر، محمد ﷺ کے گستاخ، خدا کے دشمن، متکبر، گھمنڈی، حیلہ باز اور مفسدین فی الارض!
خدا کہ ”حق“ اور ”عدل“ نام رکھتا ہے، ’ایمان‘ اور ’اعمال‘ کو دیکھے یا ’نسلی تعلق‘ کو؟؟؟!!
حق یہ ہے کہ یہود دنیا کے اندر نسل پرستی کے بانی ہیں۔ آپ ان کے دعوے دیکھیں، ان کی ذہنیت کا جائزہ لیں، اور خصوصاً کبھی ان کی تلمود پڑھیں، تو معاذ اللہ یہ خدا کو بھی اسی نسل پرستی کے مذہب پر سمجھتے ہیں!
ان کے ہاں ٹیپ کا مصرعہ ہے کہ خدا نے یعقوب علیہ السلام کو سرزمین قدس دے ڈالی تھی۔ مگر ان کی اپنی روایات سے ثابت ہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے کہ یعقوب علیہ السلام خدا سے سرزمین قدس لے کر مصر نقل مکانی کر گئے تھے! وہیں پر فوت ہوئے اور وہیں پر نسلیں چھوڑیں۔ اس کا یہ جو بھی جواب دیں مگر اس سے یہ ضرور ثابت ہوگا کہ خدا کا یہ وعدہ کسی خاص وقت اور خاص شروط اور حدود سے مقید تھا، اور یہی ہم مسلمانوں کا موقف ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ خاص قیود اور حدود کے اندر خدا نے مومنینِ بنی اسرائیل سے قدس کی پاک سرزمین میں تمکین کا وعدہ فرمایا تھا۔ موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے متصل بعد یوشع بن نون کے دور میں اور پھر داود و سلیمان علیہما السلام کے دور میں اور ان کے مابین اور ان کے بعد کے کچھ جزوی ادوار میں کہ جب انہوں نے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کیا، خدا اپنا یہ عہد پورا کرتا رہا۔ گو یہ خدا کے ساتھ بار بار عہد شکنی کرتے رہے اور خدا ان کی نصرت سے دستکش ہو کر بار بار ان کو خبردار کرتا رہا کہ ’نسلی برتری‘ اس کے دین میں نہیں۔ آخر یہ خدا کے آخری انبیاءکے ساتھ سیدھا سیدھا کفر کر لینے کے بعد ہمیشہ کیلئے راندۂ درگاہ ٹھہرے۔ تب سے یہ دنیا میں ذلت اور عبرت کا نشان ہیں نہ کہ کسی خدائی عہد کا ثبوت!
ادوارِ ماضی میں خدا سے اِن کو کچھ قربت تھی تو وہ اس حقیقت کے دم سے کہ یہ انبیاءکے مومن جبکہ باشندگانِ فلسطین خدا اور نبیوں کے منکر بت پرست۔مگر خدا کی آیات کو جھٹلانے اور نبیوں کا خون کرنے کے مجرم ہوکر، اور پھر خصوصا عیسیٰ بن مریمؑ اور پھر خاص طور پر محمد ﷺ کے ساتھ کفر کر لینے کے بعد، کونسا خدائی عہد اور کونسا وعدۂ زمین؟! سوائے ایک عہد کے کہ یہاں دنیا میں ذلت کے جوتے اور آخرت میں عذابِ الیم!!!
جبکہ وہ جن کے کفر کے مقابلے پر کبھی یہ ایمان اور خدا آشنائی کی برتری رکھتے تھے.. ان کے مقابلے پر اپنی نسل پرستی اور ’امیوں‘ سے حسد کے سبب، نہ صرف یہ اپنی اس دولتِ امتیاز سے محروم کر دیے گئے بلکہ وہ ”دولتِ ایمان“ ہی نہایت وافر صورت میں ان ’امیوں‘ کو مل گئی جو زمانے بھر میں اب خدا کے نام کی پاسبانی کرتے ہیں اور خدا کی توحید اور خدا کی تعظیم اور کبریائی کیلئے ڈیڑھ ہزار سال سے دنیا کے اندر برسرِ جہاد ہیں، براعظموں کے بر اعظم بتوں کی پلیدی سے پاک کر دینے کے کامیاب مشن پر ہیں اور جہان کے اندر نہایت اعلیٰ قدریں قائم کرنے کا امتیاز رکھتے ہیں!!!
وہ تو خدا ہے، زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے اور مردہ سے زندہ کو! سارا فضل اسی کے پاس ہے، اور وہ بے نیاز جس کو چاہے بخشے!!! نبوت محمد کی صورت، زمین پر یہ خیرات بے حد و حساب بانٹی گئی اور زمانوں کے بے نور صدیوں کے لق ودق لمحوں میں روشن اور شاداب ہوئے! اور تو اور، کیا کوئی یقین کرسکتا ہے ہند کے سومناتوں میں بستے ہوئے ہمارے مقدر جاگے!!!.. پر اس بدقسمتی پر کیا کہیے، اس بے مثال باران رحمت کا وقت آیاتو صدیوں کے واقف، کبر کے بھرے
دل اس کا کوئی اثر قبول کرنے سے انکار کر گئے اور چٹیل کے چٹیل رہنے پر ہی مصر ہوئے! یہاں سے زمانہ بالکل ہی ایک نیا موڑ مڑ گیا، پیچھے رہنے والے ہمیشہ کیلئے پیچھے رہ گئے اور دنیا میں ’نئی حقیقتیں‘ پورے زور اور قوت سے راج کرنے لگیں!
سورۂ بقرۃ میں بنی اسرائیل کا قصہ شروع کرنے سے پہلے خدا نے ابلیس کا قصہ سنایا؛ حسد، تکبر ، خود پسندی، کفر، ہٹ دھرمی اور خدا کے فیصلے پر معترض ہونے کا انجام نہایت عبرت ناک ہے۔ توبہ کے دروازے تک بند ہوجاتے ہیں! معاذ اللہ، خدا سے ٹھن جائے تو مخلوق سے بیر کیا بڑی بات ہے! اور اگر ایسے بغض بھرے کو فساد فی الارض کیلئے کسی وقت ’چھوٹ‘ دے دی جائے تو زمین میں رہنے والوں کو کیا کچھ دیکھنے کیلئے تیار رہنا چاہیے، سورہ بقرہ تا مائدہ پڑھ لیجئے اور بتائیے اس شر سے خبردار کر دینے کے معاملہ میں کونسی بات ذکر ہوجانے سے رہ گئی ہے!؟ دنیا ”ہدایت“ کیلئے قرآن نہیں پڑھتی تو بھی ’بقائے عالم‘ کیلئے مخلص طبقے اس شر سے آگاہ ہونے کے معاملہ میں آخری آسمانی دستاویز سے کبھی مستغنی نہ ہوں گے۔
مکمل تحریر >>

فریاد فلسطین

جفا کے گیسوئے پر پیچ و خم بل کھائے جاتے ہیں۔
نئے جال آئے دن دل کے لئے پھیلائے جاتے ہیں
نہالان چمن بے آب ہیں کمھلائے جاتے ہیں۔
کڑی ہے دھوپ پھول اسلام کے مرجھائے جاتے ہیں
وفاداروں کو آئین جفا دکھلائے جاتے ہیں۔
اسیران محبت قید میں بھیجوائے جاتے ہیں
زمینوں پر ہماری غیر قبضہ پائے جاتے ہیں ۔
وہ بیٹھے ہیں ہم اپنی بزم سے اٹھوائے جاتے ہیں
وطن کی دوستی اہل وطن پر رنگ لائی ہے،
فلسطیں کے مجاہد خون میں نہلائے جاتے ہیں
زمانے میں سیاہی جن کی تاریکی سے پھیلی ہے،
وہی گیسو جفا کے دوش پر بکھرائے جاتے ہیں
نظر ہٹتی نہیں ہے مقتل بیت المقدس سے،
نشان کاروان رفتہ ابتک پائے جاتے ہیں
حیا والو رگ اسلام کیو ں آئے نہ جنبش میں
، کبھی جنکو نکالا تھا وہی پلٹائے جاتے ہیں
طواف حائط بیت المقدس تھا کبھی اور اب
قفس کی چار دیواری سے سر ٹکرائے جاتے ہیں
دکھایا جا رہا ہے ہمکو باغ سبز وعدوں کا
جفا والے جفائیں کر کے دل بہلائے جاتے ہیں
چھپا جاتا ہے مہر اسلام کا راتوں میں مغرب کی
گھٹا کی طرح سے بیداد والے چھائے جاتے ہیں
دہن پر مہر خاموشی ہے دل کروٹ بدلتا ہے،
زبانیں کٹتی ہیں گر حرف شکوہ لائے جاتے ہیں
علامات جنوں کو سلسلہ بھی ختم ہے اے دل،
کہ اب چاک گریباں تا بہ دامن آئے جاتے ہیں
توانائی کے خنجرپھر رہے ہیں نا توانوں پر
یہ نقشے مغربی تہذیب کے دکھلائے جاتے ہیں
جو الجھے رشتہءجاں سے ہوس کی ہے چمک جن میں
وہ گیسو ناخن بیداد سے سلجھائے جاتے ہیں
خدا رکھے ستم ایجادوں کی اس چارہ سازی کو
کہ دل پر چوٹ بھی دیتے ہیں اور سمجھائے جاتے ہیں
تعلق دل کا اے محبوب پوشیدہ نہیں رہتا یہ کیا ہے
خود بہ خود آنکھوں میں آنسو آئے جاتے ہیں
مکمل تحریر >>

مسجد اقصی کی صدا

اے مسلم!
ذرا ہوش کر تو کہاں پہ کھویا ہے
میں کالی شب کی ظلمت میں
سو سو کر اکتائی ہوں اور تو کیونکر
بے فکر ہو کہ سویا ہے؟
میرے لیے نہیں تو اپنے ہی لیے
کچھ سوچ!تیرا مجھ سے کیا رشتہ ہے؟
اس رشتے کا کچھ پاس کرو
اس رشتے کی کوئی لاج رکھو
شاید کہ پھر ہو جائے صبح
اور چمکے خورشید آزادی
آہ!وہ قبلہ اول کہ جس پر
کالی شب کے گھٹا ٹوپ اندھیرے
اس بات کے منتظر ہیں کہ
شاید پھر صبح ہو گی
آہ! وہ مسجد اقصی سوچتی ہے کہ
کبھی تو کوئی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور
کبھی تو کوئی صلاح الدین آئے گا
اور اس کالی خونی شب سے مجھے نجات دلائے گا
اور مسجد اقصی پکارتی ہے کہ اے مسلم!
تیرے بن نہیں آئے گی روشنی
نہیں آئے گی زندگی
مکمل تحریر >>

یہودیوں کے حق ِتولیت کے 'اِشراقی' علمبردار

 عطاء اللہ صدیقی
گروہِ ملاحدہ اور سیکولر متفرنجین کی دل آزار شقاوتِ قلبی پر نوحہ گری سے قلم کو ابھی فرصت میسر نہیں آتی کہ متجددین ِشریعت میں سے کسی کی ایسی تحریر نگاہ سے گزرتی ہے جو قلب کو چیرتی ہوئی نکل جاتی ہے۔ ہمارے ہاں شریعت کو 'روحِ عصر' کے مطابق ڈھالنے کا 'عظیم مشن' لے کر عقل پرست متجددین اور اشراقی محققین کا ایک گروہ سامنے آیا ہے جس کے نزدیک تجدید ِدین کا مفہوم بس اتنا ہی ہے کہ اُمت ِمسلمہ کے جمہور فقہا نے جس بات پر اتفاقِ رائے کا اظہار کیا ہے، اس کو عقل اور روحِ عصر سے متصادم قرار دے کر اپنی 'محققانہ علمیت' کا ڈھنڈورا پیٹا جائے۔ حیرت یہ ہے کہ یہی گروہ سنت و احادیث کے قابل اعتبار ہونے کے لئے اُمت ِمسلمہ کی تاریخ سے 'تواتر ِعملی' کا ثبوت بھی مانگتا ہے۔ یہ گروہ جو اپنے حق میں 'اعتزال' کو گالی نہیں بلکہ تحسین کا نام دیتا ہے، اپنے تفردات اور عقلی تعبیرات میں اس قدر آگے نکل گیا ہے کہ معتزلہ بھی انہیں اپنے ساتھ ملانے میں شاید عار محسوس کرتے، کیونکہ وہ بھی اُمت ِمسلمہ کی دل آزاری میںاتنے بے باک واقع نہیں ہوئے تھے...!!

افغانستان کے نہتے بے گناہ مسلمانوں پر دورِحاضر کی بدترین بمباری ہورہی تھی، مسلمانوں کے جگر چھلنی کئے جارہے تھے، ان کی آبادیاں ڈیزی کٹر بموں سے اُڑائی جارہی تھیں، عین ان قیامت خیز ایام میں اس گروہ کے امام صاحب کا اخبار میں بیان چھپتا ہے:

''افغانستان پرامریکی بمباری جائز ہے۔'' (روزنامہ پاکستان، سنڈے میگزین ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۱ء)

اور پھر ارشاد ہوتا ہے: ''کشمیر کا جہاد جائز نہیں ہے۔'' بلکہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں: '' جہادِ کشمیر دہشت گردی ہے۔'' یہ تو محض ایک مثال ہے، ورنہ ملت ِاسلامیہ کو گھائل کر دینے والے ان کے بیانات کی فہرست بہت طویل ہے۔

مولانا نعیم صدیقی ؒ جو مولانا مودودی ؒ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، اس گروہ کے امام کے بارے میں فرماتے ہیں :

'' ایک تو ان میں سے بے شمار حلقہ ہائے فکر ونظر اسلامی میں سے ذرا اُبھر کر کچھ نئی راہیں نکالنے کا معاملہ ہے ، وہ ان کی خاص ضرورت ہے۔ وہ تمام نصوص اور معاملات او رنقطہ ہائے نظر سے خورد بینی نگاہ کے ساتھ ایسے پہلو یا گوشے نکالتے ہیں کہ ایک متوسط قاری یہ تاثر لے سکتا ہے کہ وقت کا کوئی بڑا مجتہد پیدا ہوا ہے جو عام سی باتوں میں ایسے ایسے لطیف نکتے نکالتا ہے کہ سر پھر جاتا ہے۔مگر اہل علم وتحقیق اگر بغور تجزیہ کریں تو بس ایک طرح کا ہپناٹزم ہے۔ اسی کو آپ (مولانا زاہد الراشدی) نے تفرد کہا ہے اور اس تفرد کے بغیر کوئی نو خیر آدمی جگہ بنا ہی نہیںسکتا۔ زور ہمیشہ کسی مروّج ومعروف مسئلے میں اختلافی دراڑ پیدا کرنے پر ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس تفرد کو کسی طرف سے مسلمہ علمی شخصیت یا ادارے کی سند ملنی چاہیے۔ اس سند کے لیے وہ فوراً اصلاحی صاحب کی طرف لپکتے ہیں۔ایک متعین مرکز استفادہ اور چند مسائل تفرد!! یہ وہ سرمایہ ہے جس سے ایک نئے علم ومرکز کا قیام عمل میں آتا ہے۔

یہ حضرات بغداد والے ان علاماؤں کی روش پر بحثوں میں پڑے وقت کی آفات سے ایسے غافل ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ تاتاری مسلمانوں او ران کی حکومتوں کوبرباد کرتے ہوئے بغداد کی طرف آر ہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ کوئی تدبیر آنے والی تباہی کے تدارک کے لیے کرتے ، انہیں اپنی بحثوں سے فرصت نہ تھی، یہاں تک کہ سب صفایا ہو گیا ۔ نہ عَلَم رہا باقی اور نہ علم۔'' (مولانا زاہد الراشدی کے نام خط: ماہنامہ 'الشریعہ'،اگست ۲۰۰۱ئ)

راقم نے نعیم صدیقی صاحب کی رائے یہاں اس لیے نقل کی ہے کہ قارئین یہ جان سکیں کہ اس گروہ کے متعلق اہل علم کیا 'حسن ظن' رکھتے ہیں۔

نعیم صدیقی صاحب نے موصوف کے مجتہدانہ تاثر پیدا کرنے کی جو بات کی ہے، وہ بالکل درست ہے، بہت سے لوگ اس تاثر کی گرفت میں ہیں۔صحافیوں کا ایک گروہ جو روایتی علما سے تو بیزار ہے مگر اسلام پسندی کو اب تک مسلک کے طور پر اپنائے ہوئے ہے، ان سے اِرادت مندی کا رشتہ رکھتا ہے۔ایک معروف صحافی تو پاکستان میں جدید اسلامی ریاست کے تصور کو فروغ دینے میں انہیں 'آخری اُمید' سمجھتے ہیں۔روزنامہ جنگ کے ایک کالم نگار نے توانہیں'فقیہ العصر' کا لقب دے رکھا ہے اور دوسروں سے یہ منوانے کے لیے تواتر سے قلمی جدوجہدفرماتے رہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان کا پاکستان کے دینی حلقوں میں اصل مقام ایک طائفہ نو اعتزال کے گرو(The Leader of Neo-Mutazalites) کا ہی ہے۔ حریت ِفکر وضمیر کے پردے میں اس منحرف گروہ نے عمل وخیال کی ایسی ایسی نئی طرحیں ایجاد کی ہیں کہ مذہبی معتقدات اور اسلامی تاریخ کے مستند واقعات کو ریب وشک میں ڈال دیا ہے۔ تحقیق کے نام پر یہ ایسے ایسے استنتاج واستنباط پیش کرتے ہیں کہ واقعی ایک عام شخص چکرا کررہ جاتا ہے۔ان کے 'عالمانہ اُلجھاؤ' اور 'محققانہ نکتہ رسی' سے پاکستان کی دینی اساس کی بساط کو خطرات در پیش ہیں۔

آج ہم ان عقل پرست متکلمین کے جس 'وصف ِخصوصی' کا ذکر کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان حضرات کا شرعی علوم سے عاقلانہ شغف یہودیوں کے متعلق ان کے قلوب میں نرم گوشہ پیدا کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ کا باعث نہیں بنتا۔ ایک طویل عرصہ سے اس گروہ کے یہودی علماء (رِبیوں) سے روابط اور ان سے انٹر نیٹ پر علمی مکاتبت کی خبریں آرہی تھیں، کبھی کبھاریہود سے اظہارِ ہمدردی پر مبنی بیانات بھی سامنے آتے رہے۔ بیت المقدس پر یہودیوں کے استحقاق کی طرف 'اشارات' بھی ان کی تحریروں میں بارہا محسوس کئے گئے، مگر حال ہی میںعقل پرست متجددین کا یہ ملت فروش بیزار گروہ مسجد ِاقصیٰ پر یہودیوں کے حق ِتولیت کا علمبردار بن کر کچھ اس انداز میں آگے بڑھا ہے کہ اگر اس کی پیش قدمی نہ روکی گئی تواتحادِ ملت میں شدید رخنہ اندازی اور فکری گمراہی کے نئے دَر کھلنے کا امکان ہے۔ اس گروہ کے محققین ملت ِاسلامیہ کے عادلانہ موقف کی تائید کی بجائے یہود کے ماخذ و مصادر سے اخذ شدہ معلومات پر اپنے 'نتائج ِعلمی' مرتب کرنے کا گہرا میلان رکھتے ہیں !!

ماہنامہ 'اشراق' مذکورہ گروہ کا 'آرگن' ہے، اس کی جولائی اور اگست ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں 'مسجد ِاقصیٰ، یہود اور اُمت ِمسلمہ' کے عنوان سے ایک نوجوان محقق کا تحریر کردہ ایک 'علمی' مقالہ شائع ہوا ہے جس میں فاضل مصنف نے سارا 'جوشِ تحقیق' اور 'زورِ علم' محض یہ ثابت کرنے پرصرف کیا ہے کہ مسجد ِاقصیٰ پر یہودیوں کے تولیت کے حق کو تسلیم نہ کرکے اُمت ِمسلمہ گذشتہ چودہ سو برسوں سے عدل و انصاف کا خون کررہی ہے۔ نوخیز محقق کے مقالہ کا بیشتر حصہ یہودی علما کے نقش ہائے عبرانی سے مزین ہے، کہیں کہیں قرآن و حدیث کے حوالہ جات بھی دئیے گئے ہیں، مگر اسرائیلیات سے اس قدر غیر معمولی شغف کے باوجود بھی موصوف کو دعویٰ یہ ہے کہ اس معاملے میں اسلامی شریعت کا صحیح منشا اگر کوئی سمجھنے کے قابل ہوا ہے، تو اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں لکھنے والا بس یہی محقق ہے...!!

بساطِ تحقیق پر جلوہ گر ہونے والے اس نووارد اِشراقی محقق کے 'علمی کارنامے' ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پچاس صفحات پر پھیلے ہوئے مضمون کا مواد اس نوجوان مصنف کی بلا شرکت ِغیرے تحقیقی کاوش کانتیجہ نہیں ہے، اس میں اس طائفہ نواعتزال کے اجتماعی خون پسینے، جو وہ اس راہ ِ تحقیق میں مدت سے بہا رہا ہے،کو بھی خاصا دخل ہے۔ اشراقیت پسندوں کا یہ گروہ اپنی ذہنی اُپج، فلسفیانہ شغف اور تقابل ادیان کی طرف گہرے میلان کی وجہ سے مسلمان علما سے رابطوں کو اپنے 'عالمانہ پندار' سے کم تر خیال کرتا ہے، البتہ یہودی ربیوں سے 'علمی مکاتبت' پر ناز کا اظہار کرتے کبھی نہیں تھکتا...!!

پاکستان میںمحض دیسی یہودیوں (یعنی قادیانی) کے متعلق عام طور پر لوگ زیادہ تر جانتے ہیں کہ انہوں نے اسرائیل میں باقاعدہ تبلیغی مشن بٹھا رکھے ہیں۔ مگر 'اشراقیہ 'کے متعلق 'اشرافیہ' (Elites)تک کو بھی علم نہیں ہے کہ ان کے یہود کے ساتھ کس حد تک گہرے 'علمی روابط' ہیں۔ جس نے ان 'روابط' کی ہلکی سی جھلک دیکھنی ہو، وہ ہمارے ممدوح محقق کا زیر تبصرہ مضمون دیکھ لے۔ ایسا مضمون اس طرح کے 'علمی روابط' کے بغیر 'جوڑنا' بے حد مشکل ہے۔

اہل اشراق کے گرو(جو اپنے حلقہ میں بجا طور پر 'فقیہ العصر' کے طور پر جانے جاتے ہیں) کے حسن انتخاب کی بھی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ انہوں نے اپنی اجتماعی کاوش اور یہودیوں کے نقطہ نظر کو اُردو زبان کے قارئین کے مطالعہ میں لانے کے لیے اس نوجوان محقق کو مبعوث فرمایاکہ جوایک ایسے مذہبی خانوادے سے تعلق رکھتا ہے جس کا مذہبی حلقوں میں خاصا احترام کیاجاتا ہے۔ یہی بات اگر وہ اپنے درجن بھر محققین میں سے کسی سے لکھواتے تو اس کا دین سے وابستہ حضرات پر وہ اثر ہرگز نہ ہوتا جو اس مقالہ کے اس نوجوان قلم کار کے لکھنے سے ہوگا۔ لیکن افسوس کہ لکھنے والے کو اپنے اس خاندانی مقام ومرتبہ اور دینی حمیت وغیرت کا وہ احساس نہیں جس کی بنا پر اشراقیوں کی نظر انتخاب اس پر ٹھہری ہے۔

عدل و انصاف کے قرآنی تصور کا عجیب و غریب تصور رکھنے والا یہ قلمکار اپنے تئیں یہ سمجھتا ہے کہ ملت ِاسلامیہ یہودیوں کے معاملے میں عدل و انصاف کے طریقے سے گریز کر رہی ہے، لہٰذا یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے صحیح راستہ سمجھائے۔

موصوف قرآنِ مجید کی آیت ''کسی قسم کے ساتھ دشمنی تمہیں برانگیختہ کرکے ناانصافی پر آمادہ نہ کردے۔'' نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

''اگر مسلمان کسی موقع پر عدل و انصاف کے طریقہ سے گریز کا رویہ اختیار کریں تو قرآن مجید کی رو سے اہل ِایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی رو رعایت کے بغیر اپنے بھائیوں کے سامنے حق کی شہادت دیں گے۔'' پھر اپنے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

''ذیل کی سطور میں ہم نے اس جذبہ کے ساتھ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔'' (ماہنامہ 'اشراق': جولائی ۲۰۰۳ء ،صفحہ ۳۴)

ہم آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیںکہ متجددین کے اس گروہ کے ارکان کے قلوب میں یہ جذبہ ہر اس مقام پر آخر کیوں بیدار ہوتا ہے جہاں ملت ِاسلامیہ کے موقف کی مخالفت کرنی ہو۔ آخر انہوں نے یہ کیسے فرض کرلیا ہے کہ آج تک اُمت ِمسلمہ میں ایک بھی بطل جلیل ایسا پیدا نہیں ہوا جو یہودیوں کے ساتھ معاملات میں عدل و انصاف کے شرعی تقاضوں کو کماحقہ سمجھ سکا ہو۔ کیا یہ نکتہ صلاح الدین ایوبی جیسے عادل بادشاہ کو بھی نہ سوجھا جس نے اپنے مخالف برطانوی بادشاہ رچرڈ کی بیماری کا سنا تو اپنا معالج بھیج دیا۔ کیا حضرت عمر فاروقؓ جنہوں نے یروشلم کے دورہ کے دوران عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ بے مثال روا داری کا ثبوت دیا تھا، ان کے دل میں بھی عدل و انصاف کا وہ تصور بیدار نہ ہوا، جس کی نشاندہی کا 'اعزاز' دورِ حاضر کے اِس محقق کوحاصل ہوا ہے۔

مضمون کے اہم مقدمات پر تبصرہ

مصنف کے تفصیلی مباحث کا جواب ہم بعد میں دیں گے ، ان کے اہم مقدمات پر مختصراً تبصرہ ہم پہلے پیش کرتے ہیں:

1. مسجد ِاقصیٰ پریہودیوں کے حق تولیت و تصرف کی وکالت کرتے ہوئے فاضل مضمون نگار لکھتے ہیں:

''فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں نے اس نہایت مقدس اور فضیلت والی عبادت گاہ کو جو صدیوں سے ویران پڑی تھی، آباد اور تعمیر کیا۔ قرآن و سنت کی اُصولی تعلیمات کی روشنی میںمسلمانوں کے اس اقدام کی نوعیت خالصتاً احترام و تقدیس اور تکریم و تعظیم کی تھی، نہ کہ استحقاق اور استیثار کی۔ اس کی تولیت کی ذمہ داری انہوں نے یہود کو اس سے بے دخل کرکے اس پر اپنا حق جتانے کے تصور کے تحت نہیں، بلکہ ان کی غیر موجودگی میںمحض امانتا ًاُٹھائی تھی۔ لیکن چونکہ اس سارے عرصہ میں یہود کے نزدیک نہ مذہبی لحاظ سے ہیکل کی تعمیر کی شرائط پوری ہوتی تھیں اور وہ نہ سیاسی لحاظ سے اس پوزیشن میں تھے کہ اس کا مطالبہ یا کوشش کریں، اس لئے کم و بیش تیرہ صدیوں تک جاری رہنے والے اس تسلسل نے غیر محسوس طریقے سے مسجد اقصیٰ کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی اور اس پر استحقاق کا ایک ایسا تصور پیدا کردیا جس کے نتیجے میں معاملہ کااصل پس منظر اور اس کی صحیح نوعیت نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔'' (اشراق: اگست ۲۰۰۳، صفحہ ۴۸)

بیت المقدس کی تولیت کی ذمہ داری اور امانت کا مندرجہ بالا تصور مصنف کے مخصوص فکری رجحانات کانتیجہ ہے، ورنہ تاریخی طور پر اس کاکوئی وجود نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تھا، تو ان کے اور عیسائیوں کے درمیان جو مفصل معاہدہ تحریر میں لایاگیا تھا، اس میںاس طرح کی کسی مزعومہ امانت کا ذکر تک نہیں ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہودیوں کی غیر موجودگی میں مسلمانوں کو اس بارِ امانت کے اُٹھانے کی ضرورت کیا تھی۔ بالخصوص حضرت عمرؓ جیسے خلیفہ عادل کی موجودگی میں، جسے یہ بھی گوارا نہ تھا کہ مسلمان بیت المقدس کے اس حصہ میں نماز ادا کریں جو عیسائیوں نے اپنی عبادت کے لئے منتخب کررکھا تھا۔ اگر اسے بعد میں یہودیوں کی تولیت میں دینے کا مسئلہ ہوتا، تومسلمان مذکورہ معاہدہ میں اس کا اِندراج ضرور کراتے، اتنی بڑی بات کو نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ حضرت عمرفاروقؓ نے یروشلم پہنچنے کے بعد اہل بیت المقدس کے ساتھ جو معاہدہ فرمایا، اس کے یہ الفاظ ہمارے خصوصی تجزیہ کے متقاضی ہیں :

''یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیرالمومنین عمرؓ نے اہل ایلیا کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لئے ہے۔ نہ ان کے گرجاؤں میںسکونت کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کو یا ان کے احاطے کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔ ایلیا کے باسیوں میں سے جو یہ چاہیں کہ اپنی جان و مال لے کر رومیوں کے ساتھ چلے جائیں اور اپنے گرجا اور صلیبیں چھوڑ جائیں تو ان کی جانوں، گرجوں اور صلیبوں کو امان حاصل ہے یہاں تک کہ وہ کسی پرامن جگہ پر پہنچ جائیں۔''

ذرا غور فرمائیے ایک ایسا تفصیلی معاہدہ جس میں گرجا تو اپنی جگہ، ایک چھوٹی سی علامت تقدس یعنی 'صلیب' تک کو امان دینے کاذکر ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اس شہر میں کسی ہیکل سلیمان یا دیوارِ گریہ کے آثار موجود ہوتے جسے اس وقت کے یہودی اپنے معبد کے طور پر استعمال کرتے تھے اور ان کا ذکر اس معاہدے میں نہ ہوتا۔ معاہدے کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ معاہدہ محض عیسائیوں سے نہیں تھا بلکہ 'ایلیا کے باسیوں' سے تھا۔ ان باسیوں میں یہودی بھی شامل ہوں گے۔ یہ پیش نظر رہے کہ فلسطین سے یہودیوں کا سو فیصد اخراج کسی دور میں بھی نہیں ہوا۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تو اس شہر میں یہودی بھی موجود تھے۔ یہودیوں کی تاریخ کے مطابق ہیکل سلیمانی کو عیسائی فاتحین نے تباہ کیا تھا۔ اب جبکہ مسلمانوں نے عیسائیوں سے یہ مقدس شہر چھین لیا تھا، تو یہودیوں کے لئے یہ نادر موقع تھا کہ وہ مسلمانوں سے اپنے مقدس مقامات کی بحالی کی درخواست گذارتے کیونکہ ان کی فاتح مسلمانوں سے براہِ راست کوئی جنگ نہیں تھی اور دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر پسے ہوئے طبقات نئے فاتح کے سامنے پرانے فاتح کی شکایات پیش کرتے ہیں۔ مثلاً پنجاب کے مسلمانوں نے انگریزوں سے سکھوں کی شکایت کی کہ انہوں نے ان کے مقدس مقامات مثلاً شاہی مسجد لاہور کا تقدس پامال کیا۔ انگریزوں نے مسلمانوں کی اس شکایت کا فوراً ازالہ کردیا۔ مگر یہودیوں کی طرف سے اس طرح کی کسی درخواست کا تاریخ میں ذکر نہیں ہے۔ آخر کیوں؟ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہاں کسی ہیکل سلیمانی کے آثار موجود نہ تھے جس کی بحالی کی وہ درخواست کرتے۔ یہ واقعی ایک مزعومہ ہیکل تھا، جس کا فسانہ فری میسن تحریک نے گھڑا تھا۔

یہ بھی مصنف کی یہود نوازی کا شاخسانہ ہے جو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہود مذہبی یا سیاسی لحاظ سے اس پوزیشن میں نہ تھے کہ اس کا مطالبہ یا کو شش کریں۔ یہودیوں کی اتنی بڑی اُمت میں کیا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو تیرہ سوبرسوں میں کبھی کسی مسلمان حکمران سے یہ مطالبہ کرتاکہ یہودیوں کو ہیکل تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتاکہ ان کایہ مطالبہ مسترد کردیا جاتا، جس کا امکان کم تھا۔ انہیں محض اس مطالبہ پر کوئی مسلمان خلیفہ قتل کی سزا تو نہ دیتا۔ پھر آخر کیا و جہ ہے کہ تاریخ ان کی طرف سے اس طرح کے مطالبہ کے ذکر سے یکسر خالی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ ایسے واقعات سے خالی نہیں ہے جس میں ظاہری طور پر شرع کے پابند مسلمان بادشاہوں نے غیر مسلم رعایا کے لئے عبادت گاہیں تعمیر کیں۔

سپین کے مسلمان بادشاہوں نے عیسائی رعایا کے لئے گرجوں کی تعمیر کے لئے رقوم عطا کیں۔ برصغیر میں اورنگ زیب عالمگیر نے ہندوؤں کے مندر شاہی خزانے سے تعمیر کرائے۔ تاریخی حقیقت وہی ہے جس کا ذکر ڈاکٹر یوسف قرضاوی، فلسطین کے موجودہ مفتی اعظم عکرمہ صبری، فلسطینی اتھارٹی کے ڈائریکٹر آف اسلامک وقف شیخ اسماعیل اور جناب یاسرعرفات نے اپنے ان بیانات میں کیا ہے، جنہیںنقل کرنے کے بعد 'اشراق' کے مضمون نگار نے انہیں 'کتمانِ حق' اور 'تکذیب ِآیات اللہ' قرار دیا ہے۔ ان حضرات نے اپنے بیانات میں بالکل درست کہا ہے کہ ''ہیکل ِسلیمانی کا کوئی وجود نہیں ہے۔''

فلسطین کے موجودہ مفتی اعظم صاحب کی تحقیق یہی ہے کہ

''پورے شہر میں کوئی ایک پتھر بھی ایسا نہیں جو یہودی تاریخ پر دلالت کرتاہو۔ یہودی تو یہ تک نہیں جانتے کہ ان کے ہیکل کا ٹھیک ٹھیک محل وقوع کیا تھا، اس لئے ہم اس مقام پر سطح زمین کے نیچے یا اس کے اوپر ان کا کوئی حق تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔''

جب تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ مسجد ِاقصیٰ کے ساتھ کوئی ہیکل سلیمانی موجودنہیں تھا، کم از کم اس وقت جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا، تو اس کی تولیت کا فسانہ کھڑاکرنا حد درجہ شر انگیزی اور مسلمانوں میں یہودی سوچ کو پروان چڑھانے کی افسوسناک سازش ہے۔ تمام عالم عرب اور اُمت ِمسلمہ کے اجماعی موقف کو 'تکذیب آیات اللہ' قرار دینا ایک ایسی مذموم حرکت ہے جس کا علما کو سخت نوٹس لینا چاہئے۔

ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا قضیہ اٹھانے کی و جہ؟

2. مصنف خلاصۂ بحث پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

''گذشتہ صدی میں جب یہود کے مذہبی حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ باقاعدہ صورت میں سامنے آیا تو وہ صہیونی تحریک کے سیاسی عزائم کے جلو میں آیا۔ اُمت ِمسلمہ کی اخلاقی ذمہ داری بلا شبہ یہ تھی کہ وہ سیاسی کشا کش سے بالاتر ہوکر اس مطالبہ کو اس کے صحیح شرعی و مذہبی تناظر میںدیکھتی اور اسلام کی اُصولی تعلیمات کی روشنی میں اس معاملے کا فیصلہ عدل و انصاف کے ساتھ بالکل بے لاگ طریقے سے کرتی۔ اہل کتاب اور ان کی عبادت گاہوں کے بارے میں اسلام کی اصل تعلیم رواداری اور مسامحت کی ہے۔ مرکز ِعبادت اور قبلہ کی حیثیت رکھنے والے مقام کے احترام اور اس کے ساتھ وابستگی کی جو کیفیت مذاہب ِعالم کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اس طرح یہود کی شریعت میں ہیکل کے مقام وحیثیت، اس کی تباہی و بربادی پر ان کے دلوں میں ذلت و رسوائی کے احساسات اور اس کی بازیابی کے حوالہ سے ان کے سینوں میں صدیوں سے تڑپنے والے مذہبی جذبات بھی ایک مسلمہ حقیقت ہیں۔ یہ ایک نہایت اعلیٰ، مبارک اور فطری جذبہ ہے اور خود قرآنِ مجید یہود سے ان کے اس مرکز ِعبادت کے چھن جانے کی وجہ ان کے اخلاقی جرائم کو قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس امکان کو بھی صراحتاً تسلیم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اور ان کی آزمائش کے لئے اس مرکز کو دوبارہ ان کے تصرف میں دے دے۔'' (ایضاً، صفحہ ۴۸)

جیسا کہ مصنف نے خود اعتراف کیا ہے، اصل میں یہ سب صہیونیوں کے مکروہ سیاسی عزائم تھے جن کی تکمیل کے لئے وہ یہ تمام ایجنڈا پیش کررہے تھے۔ ۱۸۹۷ء میں تھیوڈرہرزل کی قیادت میں جب صہیونی تحریک وجود میں آئی تواس کا اصل ہدف فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام تھا۔ ہیکل سلیمانی کی تعمیر یا دیوارِ گریہ کی مرمت ان کا مقصود ہرگز نہ تھا، فاضل مصنف اگر یہودی انسا ئیکلو پیڈیا یا یہودی رِبیوں کی طرف سے حاصل کردہ معلومات تک ہی اپنے آپ کو محدود نہ رکھتے تو ان کے لئے یہ جاننامشکل نہ تھا کہ صہیونی لیڈروں نے عثمانی خلیفہ عبدالحمید سے بار بار فلسطین میںخطہ فراہم کرنے کامطالبہ کیا تھا جہاں وہ یہودی ریاست قائم کرسکیں۔ راقم الحروف پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہتا ہے کہ اگر یہودی عثمانی خلیفہ سے یہودی ریاست کے قیام کی بجائے مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور اس کی تولیت کی درخواست کرتے تو وہ اسے شرفِ قبولیت سے ضرور نوازتا۔ کیونکہ اسی عثمانی خلیفہ نے یورپ سے نکالے گئے ہزاروں یہودیوں کو اپنی سلطنت میں پناہ ہی نہیں دی، خوشحالی کے وسائل بھی فراہم کئے تھے۔ یہودی اتنے سادہ لوح نہ تھے، جتنا کہ فاضل مصنف ان کے بارے میں ہمیں تاثر دینا چاہتے ہیں۔ یہودی تولیت پر قناعت کرنے والے نہ تھے، ہیکل سلیمانی کا فسانہ تو انہوں نے یہودی ریاست کو جواز عطاکرنے کے لئے ہی گھڑا تھا ورنہ ان کی بات میںوزن کیسے پیدا ہوتا۔

'اشراق' کے مضمون نگار یہودی ذہنیت کو سمجھنے میں قطعی طور پر ناکام رہے ہیں۔ وہ یہودیوں کے سینوں میں صدیوں سے تڑپنے والے مذہبی جذبات کا بہت واویلا کرتے ہیں اور انہیں مبارک خیال کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدیوں سے تڑپنے والے جذبات قیامِ اسرائیل کے بعد بالآخر جھاگ کی طرح کیوں بیٹھ گئے؟ اب ان کا وہ 'نہایت اعلیٰ، مبارک اور فطری جذبہ' کہاں غتر بود ہوگیا؟ وہ اتنے پرجوش تھے تو اب تک ہیکل سلیمانی تعمیر کیوں نہ کرسکے، کیا انہیںمسلمانوں کاڈر ہے یا عالمی رائے عامہ کا؟ اب تک انہوں نے جن وحشیانہ کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے، اس سے تو معلوم ہوتا ہے وہ کسی کے خوف میںمبتلا نہیں ہیں!!

مصنف نے مسلمانوں کی 'عدم رواداری' کا ذکر چھیڑ کر مسلمانوں میں 'احساسِ جرم' کو بیدار کرنے کی بے کارکوشش کی ہے حالانکہ مسلمانوں کی پوری تاریخ یہودیوں کے ساتھ رواداری پر مبنی رہی ہے۔ مسلمانوں کے دور میں یہودیوں کی تجارت خوب چمکی۔ وہ مشرقِ وسطیٰ سے سامان لے کر یورپ جاتے تھے اور خوب کمائی کرتے تھے، آج یہودیوں کی خوشحالی کی اصل وجہ مسلمانوں کی یہی تاریخی روا داری ہی ہے ۔

مصنف کا یہ کہنا کہ قرآنِ مجید میں یہودیوں کو ان کے مرکز دوبارہ ملنے کے امکان کا ذکر ہے، محض سوئے تاویل اور قرآنی آیات کی معنوی تحریف ہے۔ قرآن مجید میں یہودیوں کے جس دوبارہ تصرف کی بات کی گئی ہے ، وہ بخت نصر کی فتح کے بعد وقوع پذیر ہوچکا ، اب قرآنِ مجید کی رو سے ان کے کسی تصرف کا امکان ظاہر نہیں ہوتا۔ قرآنی آیات کی اس طرح معنوی تحریف یہودی موقف کی وکالت کے زمرے میں آتی ہے۔

3. اشراق کے مضمون نگاربالآخر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں :

''اس معاملہ میں اُمت ِمسلمہ کے موقف اور رویے کا جس قدر بھی تجزیہ کیجئے، یہی بات نکھرتی چلی جاتی ہے کہ وہ 'استحقاق' کی نفسیات سے مغلوب ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کی تولیت کی 'امانت' کو ایک مستقل مذہبی حق قرار دینے اور یہود کو اس سے قطعاً لاتعلق ثابت کرنے کے لئے علمی سطح پر انحرافات کا ایک سلسلہ وجود میں آچکا ہے۔

ہیکل کی بازیابی اور تعمیرنو کے ایک مقدس مذہبی جذبے کو 'مسجد ِاقصیٰ کی حرمت کی پامالی کی یہودی سازش' کا عنوان دے کر ایک طعنہ اور الزام بنا دینا مسجد ِاقصیٰ پر یہود کے تاریخی و مذہبی حق کی مطلقاً نفی کردینا اور اس سے بڑھ کر ان کو اس میں عبادت تک کی اجازت نہ دینا ہرگز کوئی ایسا طرزِ عمل نہیں ہے جو کسی طرح بھی قرین انصاف اور اس اُمت کے شایانِ شان ہو جس کو قوامین ﷲ شھداء بالقسط کے منصب پرفائز کیا گیا ہے۔ '' (صفحہ ۴۹)

صرف مذکورہ مضمون نگار ہی نہیں، یہودی پراپیگنڈہ سے مرعوب و متاثر کوئی بھی صاحب قلم جب اُمت ِمسلمہ کے موقف کا اپنی کج فکری کی تجربہ گاہ میں تجزیہ کرے گا، تو اسی نتیجہ پر پہنچے گا۔ موصوف کو اُمت ِمسلمہ کاموقف تو استحقاق کی نفسیات سے مغلوب لگتا ہے، مگر یہودیوں کے موقف میں کوئی سقم نظر نہیں آتا۔ یہودی آج تک ہیکل سلیمانی کا وجود ثابت نہیں کرسکے، مگر یہودیوں کے متعلق نرم گوشہ رکھنے والے بزعم خویش محقق کی نگاہ میں ان کا موقف پتھر پر لکیر کی طرح ثبت ہے۔ مصنف جس گروہ کی ہم نوائی کررہا ہے، اسے مسلمانوں کے مسلمہ موقف میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی خرابی نظر آتی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہو، یا فلسطین کا، افغانستان پر امریکی بمباری ہو یا عراق پر امریکی قبضہ، وہ ہمیشہ مسلمانوں کی مخالف سمت میں نظر آتے ہیں!!

ہم اُوپر کی سطور میں لکھ چکے ہیں کہ ہیکل کی بازیابی اور تعمیر نویہودیوں کاکوئی مقدس جذبہ نہیں ہے۔اگر اس میں ذرّہ برابر صداقت ہوتی تو کوئی امر مانع نہ تھا کہ آخر وہ اس کی تکمیل کیوں نہ کرتے، یہ مصنف کی محض سطحی تاویل تراشی اور کھوکھلی موضوعیت ہے جس کی بنا پر انہیں یہودیوں کے 'مقدس جذبہ' پر اس قدر ایمان ہے۔ مصنف یہودیوں کو مظلوم ثابت کرنے کے جوش میںاس تاریخی حقیقت کو جھٹلانے سے بھی باز نہیں رہے کہ یہودیوں کو مسلمانوں نے کبھی ان کی اپنی تعمیر کردہ عبادت گاہ پرعبادت کرنے سے باز نہیں رکھا۔ صہیونی جنونیوں کی اصل دلچسپی مسلمانوں کی عبادت گاہ کو گرا کر اس پر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا ہے ۔مصنف صہیونی مزاج اور ان کی نفسیات کا بہ نظر عمیق مطالعہ فرماتے تو یہ جاننا مشکل نہ تھا کہ یہودی مسلمانوں کی مسجد ِاقصیٰ گرا کر مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس مقدس سر زمین سے روحانی اور سیاسی طور پر بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔مسجد اقصیٰ ہی مسلمانوں کی جذباتی وابستگی کا اصل محور ومرکز ہے، جب یہ باقی نہیں رہے گا تو مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کی کوئی بھی تحریک چلانا مشکل ہو جائے گا۔مسجد اقصیٰ کو گرا کر ہیکل سلیمانی کی تعمیرمیں جو پیغام پوشیدہ ہے اسے ہر صاحب ِعقل بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے پردے میں یہودی بیت المقدس پر اپنا سیاسی تسلط مستحکم کرنا چاہتے ہیں،مصنف خوامخواہ ان کے حق تولیت کی وکالت فرما رہے ہیں۔

4.اپنے مضمون میں مصنف ایک مقام پر لکھتے ہیں :

''۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل مشرقی یروشلم پرقبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا جس میںمسجد ِاقصیٰ واقع ہے اور مسجد کواسرائیلی فوج نے اپنے کنٹرول میں لے لیا، تاہم اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان نے خیرسگالی کے اظہار کے طور پر احاطہ مقدسہ کی چابیاں اُردن کے حکمران ہاشمی خاندان کے سپرد کردیں۔'' (اشراق: جولائی، صفحہ۴۰)

راقم الحروف کے علم کے مطابق کسی مذہبی رسالہ میں لکھنے والا یہ پہلا مصنف ہے جس کی عقابی نگاہ نے تاریخ کے خونیں صفحات سے ظالم موشے دایان کی اس 'خیرسگالی' کو کھود نکالا ہے، ورنہ یہ تاریخ کے دبیز پردوں میں ہی ملفوف رہتی۔ ہمارے وہ سیکولر دانشور جو اسرائیل کی حمایت میں مہم برپا کئے ہوئے ہیں، وہ اس 'خیرسگالی' کو خوش آئند کہیں گے۔ اُنہیں ضرور مسرت ہوگی کہ اب 'اہل شریعت' میںسے بھی کچھ محقق میدان میں آگئے ہیں جو یہودیوں کی'خیرسگالی' پر دل سے یقین رکھتے ہیں۔

ہمیں حیرت ہے کہ فاضل مصنف نے اسرائیلی قیادت کی طرف سے 'خیرسگالی' کا محض یہ اکلوتا واقعہ بیان کرنے پر ہی اکتفا کیوں کیا، وہ چاہتے تو اسرائیلی وزیراعظم ایرل شیرون کی اس 'خیرسگالی' کا ذکر بھی کرسکتے تھے جس کا اس نے حال ہی میں جناب یاسرعرفات کے ساتھ اظہار کیا ہے، یعنی ان کے ہیڈکوارٹر پر ٹینک چڑھانے کے بعد اس پر قبضہ نہ کرنا بھی تو آخر 'خیرسگالی' کا اظہار ہی تھا۔ 'جنین' کے قصبہ پر بلڈوزر چڑھانے کے بعد، چند سخت جان خواتین و حضرات کی جاںبخشی کیا کم 'خیرسگالی' تھی جس کا ذکر کرنا فاضل مصنف بھول گئے؟ موصوف نے اپنے مضمون میں جو زورِ قلم دکھایا ہے، ہمیں حسن ظن ہے کہ اگر وہ چاہتے تو نہ جانے 'خیرسگالی' کے کیسے کیسے نادرۂ روزگار واقعات پر روشنی ڈال سکتے تھے۔

حق تولیت ...چند اہم سوالات

مضمون نگار نے مسجد ِاقصیٰ پریہودیوں کے حق ِتولیت کو ثابت کرنے کے لئے جو مواد جمع کیا ہے، اس کامعتدبہ حصہ یہودی ذرائع ابلاغ اور یہودی ربیوں کی ویب سائٹس سے اَخذ شدہ معلوم ہوتا ہے اور جہاںکہیں قرآن وسنت، اسلامی تاریخ سے حوالہ جات نقل کئے ہیں، ان کے سیاق و سباق اور حقیقی مفہوم کو صحیح تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی بجائے من چاہی نکتہ آفرینیوں سے ذہن میں پہلے سے بنے بنائے نتائج کو 'تحقیق' کا نام دے کر پیش کردیا ہے۔ یہی و جہ ہے کہ موصوف نے اپنے دلائل کاجو پایۂ چو بیں شدید دماغی کاوش کے بعد ترتیب دیا ہے، اس کے انہدام کے لئے باہر سے اضافی مواد کو جمع کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کے اپنے پیش کردہ موادکی صحیح تعبیر کردی جائے تو ان کا استدلال کھوکھلا ہی نہیں باطل بھی ثابت ہوجائے گا۔ اس پوری بحث میں چند باتیں بے حد اہم ہیں، مثلاً :

1. ہیکل ِسلیمانی کی تعمیر کے اصل مقام کا تعین کیسے کیا جائے؟ کیا اس کے لئے محض یہودی روایات کو ہی کافی سمجھا جائے یا اسلامی تاریخ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے؟

2. قبہ صخرا کی حقیقت کیاہے؟ اس کے مقام کا تعین کیونکر کیا جائے؟

3. کیا مسجد ِاقصیٰ عین ہیکل ِسلیمانی کی جگہ تعمیر کی گئی یا اس سے ذرافاصلے پر؟

فرض کیجئے یہ وہاں قائم کی گئی جہاں پرتباہ شدہ ہیکل سلیمانی کے آثار تھے، تو مسلمانوں کے اس اقدام کے محرکات کیا تھے؟

4. 'دیوارِ گریہ' کی حقیقت کیاہے؟ کیا یہ ہیکل سلیمانی کا باقی ماندہ حصہ ہے جسے وہ موجودہ مسجد ِاقصیٰ کی مغربی دیوار کہتے ہیں؟ دیوارِ گریہ کا دیوارِ براق سے کوئی تعلق ہے؟

5. جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تو ہیکل سلیمانی کی پوزیشن کیا تھی؟

جیسا کہ مصنف نے تحریر کیا ہے کہ ''اُمت ِمسلمہ کی نمائندگی کرنے والے مذہبی و سیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور ماہرین تاریخ کی اکثریت'' سرے سے ہیکل سلیمانی کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتی، اس کے مقام کے تعین کاسوال تو رہا ایک طرف۔ موصوف کی طرف سے پیش کردہ چند معروف شخصیات کے مختصر اَقوال کو یہاں دہرانا ضروری معلوم ہوتا ہے :

(i) ڈاکٹر یوسف قرضاوی فرماتے ہیں:

''اپنے تمام تر ترقی یافتہ سائنسی ، تکنیکی اور انجینئرنگ کے سامان کے ساتھ وہ تیس سال سے تلاش کررہے ہیں کہ مفروضہ ہیکل سلیمانی کا کوئی نشان ہی مل جائے لیکن وہ اس میںناکام ہیں۔ اس نام نہاد ہیکل سلیمانی کے وجود کااِمکان ہی کہاں ہے؟'' (اِشراق: اگست ۲۰۰۳ئ)

(ii) فلسطین کے موجودہ مفتی اعظم عکرمہ صبری صاحب کا مفصل بیان اوپر درج کیا گیا ہے، ان کے بیان کی یہ سطر اہم ہے: ''یہودی تو یہ تک نہیں جانتے کہ ان کے ہیکل کاٹھیک ٹھیک محل وقوع کیاتھا۔'' انہوں نے مزید کہا: ''دنیا کو دھوکہ دینا یہودیوں کا خاص فن ہے۔ لیکن وہ ہمیں دھوکہ نہیں دے سکتے، مغربی دیوار کے ایک بھی پتھر کا یہودی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔''

(iii)فلسطینی اتھارٹی کے ڈائریکٹر شیخ اسمٰعیل جمال کا بیان بھی نقل کرچکے ہیں، وہ کہتے ہیں:

''اسرائیل کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ الاقصیٰ کے نزدیک نہ ان کا کوئی ہیکل ہے اور نہ اس کے کوئی بچے کھچے آثار۔ قرآنِ مجید کی رو سے بنی اسرائیل بیت ِلحم کے مغرب میں کسی جگہ مقیم تھے، نہ کہ یروشلم میں...''

(iv) جناب یاسرعرفات نے ۲۰۰۰ء میںاسرائیلی وزیراعظم ایہودبارک کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہیکل سلیمانی کے وجود کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا۔ انہوں نے کہا:

''میں ایک مذہبی آدمی ہوں اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا کہ میرے ذکر میں یہ بات لکھی جائے کہ میں نے اس پہاڑی کے نیچے مفروضہ ہیکل کی موجودگی کو تسلیم کرلیا۔'' (ایضاً)

(v) رابطہ عالم اسلامی کے سرکاری بیانات اور عرب اخبارات و جرائد میں لکھنے والے کم وبیش تمام اصحابِ قلم کی تحریروں میں ہیکل سلیمانی کا ذکر کرتے ہوئے الھیکل المزعوم (مفروضہ ہیکل) کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ رابطہ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے اس دعویٰ کو مسترد کیا ہے کہ ''مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات کے اوپرقائم ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ تاریخی دستاویزات اسرائیلیوں کے اس دعویٰ کے بطلان کوثابت کرتی ہیں جس کا اعلان وہ مسجد گرا کر اس کی جگہ ہیکل کی تعمیر کے منصوبوں کی تکمیل کی غرض سے کرتے رہے ہیں۔''

مندرجہ بالا انتہائی قابل اعتبار اور اہم حوالہ جات کونقل کرنے کے بعد مضمون نگار اس رائے کا اظہار کرتے ہیں:

''حقائق و واقعات کی رو سے یہ موقف اس قابل نہیں کہ اس علمی و تاریخی بحث میں اس سے تعرض بھی کیا جائے۔ قرآن و سنت کی تصریحات، مسلمہ تاریخی حقائق، یہود و نصاریٰ کی مذہبی روایات مسلمانوں کے تاریخی لٹریچر اور مسلم محققین کی تصریحات کی روشنی میں نہ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہے کہ مسجد ِاقصیٰ دراصل ہیکل سلیمانی ہی ہے، نہ اس دلیل میں کوئی وزن ہے کہ اثریاتی تحقیق کے نتیجہ میں مسجد ِاقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے کوئی آثار دریافت نہیں ہوسکے۔''

اس قدر جذباتی ہیجان خیزی میںمبتلا ہونے کے باوجود موصوف کی نرگسیت اور پندار کا ٹھکانہ نہیں ہے کہ وہ اسے 'علمی و تاریخی بحث' قرار دیتے ہیں۔ اگر موصوف کسی خاص 'اشراقی جلال' میں آکر یہ باتیں کہتے تو صوفیا کی بعض شطحات کی طرح ان کی تاویل شاید قبول کی جاسکتی تھی مگر وہ تو مصر ہیں کہ ان کی یہ جذباتی رائے بھی قرآن و سنت، تاریخی حقائق وغیرہ سے مستنبط ہے۔ لہٰذا ہم ان سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آخر قرآن و سنت کی وہ کون سی تصریحات ہیں جو ان کے علم میں تو ہیں مگر اُمت ِمسلمہ کے کسی عالم، مؤرخ یا محدث کی نگاہ سے اب تک اوجھل رہی ہیں۔ کیا مصنف قرآنِ مجید کی کوئی ایک آیت یا کسی ایک حدیث کاحوالہ دے سکتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ مسجد ِاقصیٰ کی تعمیر ہیکل سلیمانی کی جگہ پر کی گئی ہے ؟

یہودیوں کے موقف کی تائید میں اگر کوئی 'تاریخی حقائق'ہیں تو اس کو وہ خود ثابت نہیں کرسکے، البتہ اس کا علم ہمارے ممدوح کو ضرور ہوگیا ہے۔ اگر 'تاریخی حقائق' کی خود ساختہ کہانی میں ذرا سی جان بھی ہوتی تو مندرجہ بالاجلیل القدر،علمی و سیاسی شخصیات بقائم حوش وحواس ان کا انکار کیسے کرسکتی تھیں؟ کیا آج کے سائنسی دور میں 'تاریخی حقائق' کو اس اعتماد اور یقین کے ساتھ مسترد کیا جاسکتا ہے جس کا اظہار ان کے بیانات سے ہوتا ہے؟ تعصب اور مذہبی جذبات ایک طرف، تاریخی حقائق کو اس انداز میں جھٹلانا ممکن نہیں!!

اگر اُمت ِمسلمہ کے اہل علم یہودیوں کے پیش کردہ 'تاریخی حقائق' کو جھٹلاتے ہیں، تو ہمارا ایمان یہ کہتا ہے کہ ان کی یہ بات درست ہے کیونکہ یہودی 'مفروضات' کوتاریخی حقائق بنا کر پیش کررہے ہیں۔ کوئی معقول و جہ نہیں ہے کہ ان کی دیانت پر شک و شبہ کا اظہار کیاجائے، وہ بھی یہودیوں کے مقابلے میں جن کے دجل و فریب سے ایک زمانہ واقف ہے۔ مصنف نے محض قلمی روانی میں اس فہرست میں 'یہود و نصاریٰ کی مذہبی روایات' کا ذکر بھی کردیا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جو سوال زیر بحث ہے، اس کاجواب یہودی مذہبی روایات سے آخر کیونکر دیا جاسکتا ہے؟

اصل سوال یہ ہے کہ مسجد ِاقصیٰ، ہیکل سلیمانی پر تعمیر کی گئی ہے یا نہیں؟ اس بات کا جواب یہودیوں کی تاریخ سے تو دیا جاسکتا ہے مگر ان کی مذہبی روایات سے نہیںکیونکہ بنو اسرائیل کی مذہبی روایات، اسلام سے پہلے کی ہیں اور مسجد ِاقصیٰ بقولِ مصنف بنو اُمیہ کے دورمیں تعمیر کی گئی تھی۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ معروف معنوں میں جسے آج کل مسجد ِاقصیٰ سمجھا جاتا ہے وہ یہی مسجد ہے۔یہودی بھی اسی 'مسجد اقصیٰ' کو گرانے کے در پے ہیں جبکہ قرآن مجید میں جس'مسجد اقصیٰ' کا ذکر آیا ہے وہ مسجد ِحرام کی طرح محض ایک احاطہ کی صورت میں تھی، اس وقت وہاں کوئی عمارت نہ تھی۔ تولیت کا تعلق ہمیشہ کسی عمارت سے ہوا کرتا ہے۔ فتح مکہ کے وقت خانہ کعبہ کے متولیوں کا ذکر ملتا ہے نہ کہ مسجد ِحرام کا۔ دورِ نبویؐ میں موجود مسجد ِاقصیٰ (احاطہ) پر مسلمانوں کی طرف سے تولیت کا آغازبھی عملاً اسی مسجد (بنو اُمیہ کی تعمیر کردہ) کے وجود میں آنے کے بعد ہوا ۔مسجد ِاقصیٰ کی حیثیت کے متعلق مزید تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔

اسمنطقی استدلال کو کسی زمرے میں شمار کیا جائے جس میں زمان و مکان کا احساس تک نہ رہا ہو۔ یہی حال مسلمانوں کے 'تاریخی لٹریچر اور مسلم محققین کی تصریحات' کے حوالے کا ہے۔ ان کی رو سے یہودیوں کے دعویٰ کا بطلان ثابت ہوتا ہے نہ کہ تصدیق۔ اس قدر لن ترانی اور شاعرانہ تعلّی سے کام لینے کے بعد، ہمارا خیال تھا کہ مصنف اپنے دعویٰ کی تائید میں قرآن وسنت کے حوالہ جات پیش فرمائیں گے، تاریخی حقائق کے چکا چوند دفاتر کھول کر رکھیں گے اور اسرائیل کی مذہبی روایات پیش کریں گے مگر وائے افسوس! تخیل کے براق پر سواریہ محقق اپنے بلند بانگ دعویٰ کے ثبوت کے لئے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اگر کچھ پیش کرسکے تو وہ ۱۹۳۰ء میںشائع شدہ ایک ٹورسٹ گائیڈ کی تین چار غیر متعلقہ سطور تھیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم مصنف کی پیش کردہ دو سطور یہاں خاص طور پر نقل کر رہے ہیں :

''اس کمرے کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں یقینی طور پرکچھ معلوم نہیں۔ غالباً اس کی تاریخ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے معاصر ہے۔ مؤرخ یوسفس کے مطابق ۷۰ عیسوی میںطیطس کے فتح یروشلم کے وقت یہ موجود تھے اور یہودیوں نے اسے پناہ گاہ کے طور پراستعمال کیا گیا۔'' (ایضاً)

ہم نہیں جانتے کہ مصنف نے یہ سطور کس غرض سے نقل کی ہیں۔ اگر ان کامقصد مندرجہ بالا سوال کا جواب دینا ہے تو اس کے متعلق ان سطور سے ہمیں کوئی روشنی نہیں ملتی بلکہ اُلٹا متضاد معلومات ملتی ہیں۔ ان نقل کردہ سطور میں ہیکل سلیمانی اور 'کمرے' کا الگ الگ ذکر ہے ۔ اگر اس 'کمرے' سے مراد موجودہ مسجد ِاقصیٰ لی جائے تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہیکل سلیمانی اور مسجد ِاقصیٰ ایک مقام پر نہیں ہیں۔ یہ کمرے ہیکل کے وقت بنائے گئے مگر اس کی تباہی کے بعد بھی قائم رہے جس میں یہودیوں نے پناہ حاصل کی۔

مندرجہ بالا حوالہ نقل فرمانے کے بعد مصنف بیت المقدس کی فضیلت اور قبہ الصخرہ کے قابل تعظیم نہ ہونے کاذکر لے بیٹھتے ہیں۔ اس غیر متعلقہ بحث میں پڑ کر مصنف ایک حد تک ثابت بھی کردیتے ہیں کہ بیت المقدس کو 'حرم' کا مقام نہیں دیا جاسکتا مگر مذکورہ بالا سوال کا جواب پھر بھی تشنہ رہتا ہے۔ جب صخرہ کی فضیلت اور تعظیم کے جمہور علما قائل ہی نہیں ہیں، تو نجانے کس 'ذوقِ تحقیق' کی تسکین کے لئے انہوں نے حوالہ جات کی بھرمار کردی ہے۔ اس معاملے میں شیخ محمد ناصر الدین البانی ؒ کا یہ مختصر قول ہی کافی تھا :
''فضیلت صرف مسجداقصیٰ کی ہے، صخرہ کی نہیں! ''

دیوارِ گریہ

'دیوارِ گریہ' کے وجود و مقام کے تعین کے متعلق بھی اِشراق کے مضمون نگار یہودی موقف کے ساتھ''وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے''کا مظاہرہ فرماتے ہیں۔ یہودیوں بالخصوص فری میسن تحریک کے ڈرامہ بازوں نے اس بارے میں جو کچھ کہہ دیا ہے، اس میں کسی قسم کا شبہ وارد کرنا وہ 'ضعف ِایمان' کی علامت سمجھتے ہیں۔ البتہ یہاں بھی مسلم اکابرین کی 'خطا گرفتن' کی جسارت کا ارتکاب اسی بے باکی سے فرماتے ہیںاور یہ حد درجہ افسوسناک ہے۔ نوجوان محقق فرماتے ہیں :

''۱۹۷۰ء میں ہیکل سلیمانی کی تباہی میں اس کی مغربی دیوار محفوظ رہ گئی تھی۔مذہبی وتاریخی اہمیت کے پیش نظر اس دیوار کو یہود کے ہاں ایک متبرک و مقدس مقام کی حیثیت حاصل ہوگئی اور اس دیوار کی زیارت کے لئے آنے اور اس کے پاس دعاو مناجات اور گریہ وزاری نے رفتہ رفتہ ان کے ہاں ایک مذہبی رسم کی حیثیت اختیار کرلی۔ یہ حقیقت تاریخی لحاظ سے مسلم ہے۔''

یہ ان کا بیان ہے جو بادئ النظر میں درست نہیں ہے۔ عرب مسلمانوں اور اُمت ِمسلمہ کا موقف یہ ہے کہ یہ مغربی دیوار دراصل وہ مقام ہے جس کے ساتھ رسول اللہ1 نے سفر معراج کے موقع پر اپنی سواری کے جانور 'براق' کوباندھا تھا، اس لئے یہ مسلمانوں کابھی مقدس مقام ہے۔ مفتی اعظم فلسطین عکرمہ صبری فرماتے ہیں :

''بات بالکل صاف ہے: دیوارِ گریہ یہودیوں کا مقدس مقام نہیں ہے یہ تو مسجد کا اٹوٹ انگ ہے۔ ہم اس کو دیوارِ براق کہتے ہیں جو اس گھوڑے کا نام ہے جس پر سوار ہوکر محمد1 یروشلم سے آسمان پر تشریف لے گئے... دیوارِ براق کے کسی ایک پتھر کا بھی یہودیت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہودیوں نے اس دیوار کے پاس اُنیسویں صدی میں دعا مانگنا شروع کی جب ان کے دلوں میں کئی آرزوئیں پروان چڑھنا شرو ع ہوگئی تھیں۔''

جناب یاسر عرفات نے اپنی تقریر میں کہا :

''اس دیوار کا نام مقدس دیوارِ براق ہے نہ کہ دیوارِ گریہ۔ ہم اس کو دیوارِ گریہ نہیں کہتے۔ ۱۹۲۹ء میں اس مسئلہ پر ہونے والے ہنگاموں کے بعد شاکمیشن(Shaw Commission) نے قرار دیا کہ یہ مسلمانوں کی ایک دیوار ہے۔'' (اشراق: اگست ۲۰۰۳ء ، ص ۴۶)

فاضل 'محقق' نے دیوارِ براق کے متعلق تو تبصرہ کیا ہے کہ ''اس جگہ کی تعیین کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔'' مگر انہیں یہودیوں کے 'دیوارِ گریہ' کے دعویٰ میں 'ہرقرینہ' دکھائی دیا ہے، اسی لئے اس پر وہ شک کرنے کو دل و جان سے 'گناہ' سمجھتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کی اوہام وخرافاتthology) (My میں دیوارِ گریہ کا ذکر تو ملتا ہے، مگر اس کی تعیین ان کے بیانات میں بھی نہیںملتی۔ حتیٰ کہ فری میسن تحریک جس نے دیوارِ گریہ اور ہیکل ِسلیمانی کو ڈرامائی رنگ عطا کیاہے، اس میں بھی یہ بیان نہیں ملتا کہ مسجد ِاقصیٰ کی مغربی دیوار، دیوارِ گریہ ہے۔

جنونی یہودی رِبیوں اور صہیونی تحریک کے علمبرداروں نے اُنیسویں صدی میں پہلی مرتبہ جوش و خروش کے ساتھ 'دیوارِ گریہ' کو مسجد ِاقصیٰ کا حصہ کہنا شروع کیا۔ فاضل مصنف نے بھی کوئی ایک حوالہ پیش نہیں کیا جس کی رو سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہودیوں نے ماضی بعید میں دیوارِ گریہ کا تعین کررکھا تھا۔ ہماری اس رائے کی تائید شاکمیشن کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ یہ کمیشن لیگ آف نیشن اوریورپی ریاستوں کے زیرسرپرستی قائم ہوا تھا جو مسلمانوں کی بجائے یہودیوں کی پشت پناہی کررہی تھیں۔ یاد رہے کہ اس کمیشن کے قیام سے بارہ برس قبل اعلانِ بالفور (۱۹۱۷ء) ہوچکاتھا جس کی رو سے یہودیوں کے الگ ریاست کے حق کوتسلیم کیا گیا تھا۔ اگر 'دیوارِ گریہ' کے متعلق یہودیوں کے دعویٰ میں کچھ بھی صداقت ہوتی تو یہ کمیشن اس ذرّہ کو پہاڑ بناکر پیش کرتا تاکہ اس کی بنیاد پر یہودیوں کی ریاست کے لئے راہ مزید ہموار کی جاسکے، مگر وہ یہودیوں سے تمام تر خیرخواہی کے باوجود ایسا نہ کرسکے۔نجانے اِشراقی محققین ان ننگے حقائق سے اپنی نگاہیں کیوں پھیر لیتے ہیں۔ جو بات عقل ِعام میں فوراً آجائے، اس کے سمجھنے میںدورِ حاضر کے بزعم خویش افلاطون کوتاہی کا مظاہرہ جان بوجھ کر کرتے ہیں۔

مصنف نے برطانوی کمیشن کے سامنے ۱۹۳۰ء میں دیئے گئے یہودیوں کے بیان کا یہ حصہ بھی نقل کیا ہے : ''ہیکل میں داخل ہونے کے لئے محمدﷺ نے کون سا راستہ اختیار کیا، اس کا تعین بھی نہیں کیا جاسکا اور یہ صرف حالیہ زمانے کی بات ہے کہ مسلمانوں نے یہ مشہور کرنا شروع کردیا ہے کہ پیغمبر یہاںسے گزرے تھے۔''

اس بیان میں جھول پایا جاتا ہے جس پر مصنف کی نگاہِ التفات نہیں پڑی۔ 'ہیکل میں داخل ہونے کے لئے' کے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہودی سمجھتے ہیں کہ جب حضرت محمدﷺکا واقعہ معراج پیش آیا تو وہاں پرکوئی ہیکل موجود تھا جس میں گذرنے کی انہیں ضرورت پیش آئی۔ ہیکل بنیادی طور پر عمارت تھی، نہ کہ پلاٹ۔ جب یہودی روایات یہ بتاتی ہیں کہ دوسرا ہیکل سلیمانی بھی ۷۰ء میں تباہی کا شکار ہوگیاتھا تو پھر واقعہ معراج کے وقت کون سا ہیکل موجود تھا جس میں وہ محمدﷺ کے داخلہ کاذکر کرتے ہیں؟ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں، مصنف کو ان کے درمیان بھی تطابق تلاش کرنا چاہئے تھا۔ اگر وہ اسی بیان پر ذرا توجہ فرماتے تو انہیں یہودیوں کے دیگر بیانات کی افسانوی حیثیت کا شاید اندازہ ہوجاتا، مگر وہ تو تحقیق کے سفر پر نکلے ہی یہ مقصد لے کر تھے کہ یہودیوں کی باتوں کی تصدیق اور اُمت ِمسلمہ کے موقف کا ابطال کیا جائے تو پھر ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ ان کو یہودیوں کے حق تولیت سے محرومی کا رونا رونے سے فرصت ملتی تو وہ اصل حقائق پر توجہ ڈال سکتے۔ عجیب بات ہے کہ انہوں نے ایک ایسی چیز کے حق تولیت کے ثبوت کے لئے استدلال کی عمارت کھڑی کرنی چاہی جس کابذاتِ خود وجود ایک افسانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا !!

مسجد اقصیٰ کی تولیت ، مسلمانوں کا قانونی حق ہے یا اخلاقی؟

'فنا فی التحقیق' ہمارے ممدوح نے مسجد ِاقصیٰ پر یہودیوں کے حق تولیت کو 'فائق' ثابت کرنے کے لئے جو نادرۂ روزگار نکتہ آفرینی فرمائی ہے، وہ ایک اعلیٰ درجہ کی 'بو العجبی' سے کسی طور کم نہیں ہے۔ فرماتے ہیں: ''تاریخی لحاظ سے مسجد ِاقصیٰ کے ساتھ مذہبی تعلق و وابستگی کے دعوے میں دونوں فریق بنیادی طور پر سچے ہیں۔''

اتنے معرکۃ الآرا مسئلہ میں، بنیادی طو رپر دونوں سچے کیسے ہوسکتے ہیں، ہماری عقل میں تو نہیں آتا۔ فرض کیجئے اگر دونوں سچے ہیں، تو پھر یہودیوں کے حق ِتولیت کو 'فائق'کیسے مان لیا جائے۔ مسلمان جب برابر کی سطح پر'سچے' ہیں تو انہیں مسجد ِاقصیٰ کی تولیت سے محروم کرنے کے لئے مصنف کاہے کو زورِ قلم دکھا رہے ہیں۔ بنیادی طور پر ایک بے جوڑ بات کرنے کے بعد یہودیوں کے حق تولیت کے حق میں مصنف یوں استدلال فرماتے ہیں :

''فریقین کے تعلق و وابستگی کے دعوے کو درست مان لینے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اس پر تولیت کا حق کس فریق کو ملنا چاہئے اور فریقین میں سے کس کے حق کو کس بنیاد پر ترجیح دی جائے؟ جہاں تک قانونی پہلو کا تعلق ہے، اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے دعویٰ تولیت کو ایک عملی و جہ ِترجیح حاصل ہے۔ انہوں نے یہ عبادت گاہ نہ یہودیوں سے چھینی تھی اور نہ ان کی پہلے سے موجود کسی عبادت گاہ کو ڈھاکر اس پر اپنی عبادت گاہ تعمیر کی تھی۔ نیز وہ بحالت ِ موجودہ اس کی تولیت کے ذمہ دار ہیں اور وہ یہ ذمہ داری گذشتہ تیرہ صدیوں سے، صلیبی دور کے استثنا کے ساتھ، تسلسل کے ساتھ انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پربھی اس کی تولیت کا حق دار مسلمانوں ہی کو تسلیم کیا گیا ہے۔'' (اشراق: اکتوبر۲۰۰۳ء)

ان حقائق کو تسلیم کرلینے کے بعد موصوف یوں موشگافی فرماتے ہیں:

''تاہم قانونی پہلو کو اس معاملے کا واحد قابل لحاظ پہلو سمجھنے کے عام نقطہ نظر سے ہمیں اختلاف ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اس نوعیت کے مذہبی تنازعات میں قرآن و سنت کی رو سے اصل قابل لحاظ چیز، جس کی رعایت مسلمانوں کو لازماً کرنی چاہئے، وہ اخلاقی پہلو ہے۔ اس بحث کی تنقیح کیلئے ہمارے نزدیک اس بنیادی سوال پرغور وخوض مناسب ہوگا کہ مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا مسلمانوں کے ہاتھوں میں آنا آیا شرعی نوعیت کا کوئی معاملہ ہے یا تکوینی و واقعاتی نوعیت کا؟ دوسرے لفظوں میں، آیا یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم اور تقاضا ہے کہ مسلمان یہود کو اس عبادت گاہ سے لاتعلق قرار دیکر ان کی جگہ اس کی تولیت کی ذمہ داری خود سنبھال لیں یا محض تاریخی حالات و واقعات نے ایسی صورتحال پیدا کردی تھی کہ مسلمانوں کو اس کی تولیت کی ذمہ داری اُٹھانی پڑی۔''

بظاہر تویہ استدلال بڑا ہی لطیف ہے مگر اس پر ذرا غور کیا جائے تو یہ وکیلانہ موشگافی سے زیادہ نہیں ہے۔ مصنف یہ اِدراک کرنے سے قاصر رہے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو قانونی لحاظ سے حق ِتولیت کے بارے میں قابل ترجیح سمجھا گیا ہے تو اس کی بنیادی و جہ اس معاملے میں انکی اخلاقی برتری ہے۔ یہاں قانونی برتری کی اصل، بنیاد ا خلاقی برتری ہی ہے۔ مسجد ِاقصیٰ کے معاملے میں قانونی اور اخلاقی پہلو ناقابل ِانفکاک ہیں، اگر اخلاقی پہلو کو نظر انداز کردیا جائے، توقانونی پہلو اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ قانونی اور اخلاقی سطح کی ثنویت کا تصور بھی اس محقق کے اختراعی ذہن کا نتیجہ ہے، ورنہ یہ جاننا مشکل نہیں ہے کہ مسجد ِاقصیٰ پر مسلمانوں کے دعویٰ کی حقیقی بنیاد ہی اخلاقی ہے۔

مصنف یہ بات بھی فراموش کرگئے ہیں کہ قانون قومی ہو یا بین الاقوامی، اس کا اصل ماخذ (Source) اور سرچشمہ اخلاقیات (Ethics) ہی ہوتا ہے۔ اخلاقیات بھی دو طرح کی ہیں، سیکولر اخلاقیات اور مذہبی اخلاقیات۔ سیکولر اخلاقیات کی بنیاد عام طور پر 'عرف' رواج، رسومات و تاریخی روایات اور ثقافتی تاریخ ہوتی ہیں۔ مگر مذہبی اخلاقیات اپنی تمام تر قوت الہامی تعلیمات اور وحی سے اخذ کرتی ہے۔ رومی قانون، یونانی قانون، اینگلو سیکسن لائ، فرانسیسی قانون، چینی قانون، غرض آپ دنیا کے جس قانونی ڈھانچے کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی بنیاد میں یہی عناصر کار فرما ہیں۔ قوموں کے آپس کے تعلقات کو منضبط (Govern)کرنے والا بین الاقوامی قانون بھی اس اُصول سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ مسجد ِاقصیٰ کے متعلق 'قابل لحاظ پہلو' اگر مصنف کے نزدیک اخلاقی ہی ہے تو انہیں بتانا چاہئے تھا کہ بین الاقوامی سطح پر آخر مسلمانوں کے حق ِتولیت کو کیوں تسلیم کیا گیا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ سیکولر اخلاقیات اور مذہبی اخلاقیات، دونوں کی رو سے مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا حق بجا طور پر مسلمانوں کو ملنا چاہئے۔ سیکولر اخلاقیات کی رو سے اس لئے کہ مسلمانوں نے یہودیوں کی کسی عبادت گاہ کو گرا کر کوئی نئی عمارت قائم نہ کی، وہ ان کی اپنی تعمیر کردہ ہے۔لہٰذا اپنی تعمیر کردہ عمارت کیلئے وہ یہودیوں کا حق تولیت کیونکر تسلیم کرلیں۔ ثانیاً یہ کہ گذشتہ تیرہ صدیوں کا ان کا تولیتی تسلسل وہ اخلاقی بنیادیں فراہم کرتا ہے جس کو بین الاقوامی برادری نے عادلانہ طورپر تسلیم کرلیا ہے، لہٰذا مصنف کی رائے کا ہمارے نزدیک پانی کے تالاب میںایک قطرے جتنا وزن بھی نہیں!!

مذہبی اخلاقیات کی رو سے بھی مسلمانوں کو اس کا حق ملنا چاہئے۔ اس بارے میں علما کی طرف سے واقعہ اِسراء کے حوالہ سے جو دلائل دیئے گئے ہیں، ہم اس کو وزنی اور وقیع خیال کرتے ہیں۔جس مقام سے مسلمانوں کے پیغمبر نے معراج کا سفر اختیار کیا، اور وہاں پرانبیا نے ان کی امامت میں نماز ادا کی، اور جسے مسلمانوں کے قبلۂ اوّل ہونے کا شرف بھی حاصل ہے اور جس کا ذکر باقاعدہ قرآن مجید میں کیا گیا ہے، آخر اس سے زیادہ مذہبی اخلاقیات کی اور کن بنیادوں پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔

یہ نکتہ بھی بیان کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اشراقی مضمون نگار اگر اخلاقی اعتبار سے یہودیوں کو مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا حق دینا چاہتے ہیں، تو اس کا سبب محض یہودی پراپیگنڈہ ہے، ورنہ قرآن و سنت سے ان کی ا خلاقی برتری کاجواز نہیں نکلتا۔ موصوف جب خود ہی تسلیم کرتے ہیں کہ

''بنی اسرائیل کے اجتماعی طورپر شرک میںمبتلا ہوجانے اور شریعت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دینے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بابل کے بادشاہ بنوکدنصر کو ان پر مسلط کیا جس نے ۵۸۶ء ق م میں یروشلم پر حملہ کرکے ہیکل کو برباد کردیا۔''

اور پھر عہد ِنامہ عتیق کی یہ عبارت بھی انہوں نے نقل کی ہے :

''اگر تم میری پیروی سے برگشتہ ہوجاؤ اور میرے احکام اور آئین کو جو میں نے تمہارے آگے رکھے ہیں، نہ مانو بلکہ جاکر اور معبودوں کی عبارت کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگو تو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے ان کو دیا ہے، کاٹ ڈالوں گا اور اس گھر کو جسے میں نے اپنے نام کے لئے مقدس کیا ہے، اپنی نظر سے دور کردوں گا ... اور وہ کہیں گے کہ خداوند نے اس ملک اور اس گھر سے ایسا کیوں کیا۔''

مصنف کہتے ہیں کہ''ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے تقریباً ساڑھے تین سو سال بعد یہ پیش گوئی پہلی مرتبہ یرمیاہ نبی کے زمانے میں پوری ہوئی۔''

ہم حیران ہیں کہ اس کے بعد یہودیوں کی کون سی اخلاقی حیثیت باقی رہ جاتی ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا دعویٰ کرسکیں۔ جب تورات کی پیش گوئی کے مطابق ان کی عبادت گاہ یعنی ہیکل سلیمانی کو ان کی نظروں سے دور (تباہ) کردیا گیا ہے تو پھر وہ کون سا اخلاقی پہلو ہے جس کو بروئے کار لاکر مصنف یہودیوں کی وکالت میں ہلکان ہوئے جارہے ہیں۔ جب خدائے بزرگ و برتر کی منشا نہیں کہ یہودیوں کے ہیکل کا وجود قائم رہے تو پھر اسلام کی ان تعلیمات کو اس مقدمہ میں بنیادکیسے بنایاجاسکتاہے جن کی رو سے مسلمانوں کو غیر مسلموں کی عبادات کے احترام کا درس دیا گیا ہے۔ اشراقی مصنف نے ان تعلیمات کا حوالہ دے کر اپنی عقل کو منشائے خداوندی سے بڑھا کر دکھانے کی جسارت کی ہے جسے ہم نرم ترین الفاظ میں افسوس ناک قرار دیتے ہیں۔ ایک مغضوب و مذلول قوم کی وکالت کرکے نجانے کون سی خوشنودی ہے جس کا حصول ان کے پیش نظر ہے...!! 

مسجد اقصیٰ کہاں پر ہے؟

یاد رہے کہ آج کی مسجداقصیٰ وہ 'مسجد ِاقصیٰ' نہیں ہے جس سے آقائے دوجہاں، امام الانبیا نے معراج کا سفر شروع کیا تھا۔ یہ درحقیقت وہ مسجد ہے جس کی تعمیر اُموی خلیفہ عبدالملک کے دور میں ۶۸۸ء میں ہوئی تھی۔ اس کا اعتراف اشراقی مصنف کو بھی ہے۔ دوسری بات جان لینے کی یہ ہے کہ قبۃ الصخرۃ اور مسجد ِاقصیٰ بھی ایک نہیں ہیں جیسا کہ مصنف کی ان سطور سے ظاہر ہوتا ہے

''۶۳۸ء میں مسلمانوں نے یروشلم کو فتح کیا تو اس موقع پر امیرالمومنین عمر بن الخطابصحابہ کی معیت میں مسجد ِاقصیٰ میں آئے۔ اس وقت ہیکل کے پتھر (صخرۂ بیت المقدس) کے اوپر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے صحابہ کرام ؓکے ساتھ مل کر اس کو صاف کیا اور احاطہ ہیکل کی جنوبی جانب میںنماز پڑھنے کے لئے ایک جگہ مخصوص کردی۔ بعدمیں اس جگہ پرلکڑی کی ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ ۶۸۸ء میں اُموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے صخرہ بیت المقدس کے اوپر ایک شاندار گنبد تعمیر کرا دیا جو قبۃ الصخرۃ "Dome of Rock" کے نام سے معروف ہے۔ اس نے لکڑی کی مذکورہ سادہ مسجد کی تعمیر نو کرکے اس کے رقبے کو مزید وسیع کردیا، اسلامی لٹریچر میں 'مسجد اقصیٰ' سے مراد یہی مسجد ہے۔'' (اشراق: اگست ۲۰۰۳ء)

اس عبارت سے درج ذیل باتیں اَخذ کی جاسکتی ہیں:

1. ۶۳۸ء میں مسلمانوں نے جب یروشلم فتح کیا تو ہیکل کے پتھر پر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا، گویا اس کی عبادت نہیں کی جاتی تھی۔ اگر یہ ہیکل سلیمانی کا پتھر ہوتا تواس حالت میں ہرگز نہ ہوگا۔ یروشلم میں موجود یہودیوں کی مختصر تعداد بھی اپنے معبد کا یہ حشر نہ ہونے دیتی۔

2. حضرت عمرؓ کے دور کے بعد وہاں تعمیر کی جانے والی لکڑی کی مسجد (مسجد عمرؓ) ہیکل کی جنوبی جانب تعمیر کی گئی، یعنی عین ہیکل پر اس کو نہ بنایا گیا۔

3. عبدالملک نے قبۃ الصخرہ اور مسجد ِاقصیٰ دونوں بنائیں۔ مسجد اقصیٰ کا مقام وہی رکھا گیا، جہاں پر 'لکڑی کی مسجد' (مسجد عمر) واقع تھی، گویا یہ مزعومہ ہیکل کے مرکزی حصہ سے ہٹ کر تعمیر کی گئی۔

مندرجہ بالا معلومات کودرست مان لیا جائے، تو یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ 'مسجداقصیٰ' ہیکل سلیمانی کی عین جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔ اگر حقیقت یہی ہے تو پھراشراقیت پسندوں کی جانب سے یہودیوں کے حق تولیت کی بازیابی مہم ہوا میں معلق ہوکر رہ جاتی ہے، زمینی حقائق تو اس کے خلاف ہی ثابت کرتے ہیں۔

مصنف نے عہد ِنامہ عتیق (تورات) اور یہودی مصادر سے جو معلومات نقل کی ہیں، ان سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کو ہیکل سلیمانی کانام بہت بعد میں دیا گیا مثلاً وہ لکھتے ہیں:

''پوپ اربن دوم کے کلمہ پر عیسائی مجاہدین کا ایک لشکر یروشلم پر قبضے کے لئے روانہ ہوا جس نے ۱۰۹۹ء میں یروشلم پر قبضہ کرکے مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کو اپنے تصرف میں لے لیا۔ مسیحی فاتحین نے قبۃ الصخرۃ کے اوپر ایک صلیب نصب کرکے اس کو "Templum Drmini" کا اور مسجد اقصیٰ کو "Templum Solomoni" کا نام دے دیا'' (ایضاً)

اس عبارت سے جہاں یہ مترشح ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ دو الگ الگ عمارتیں ہیں، وہاں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی بنائی ہوئی مسجد اقصیٰ کو پہلی دفعہ 'سلیمانی ٹیمپل' کا نام صلیبی جنونیوں نے ۱۰۹۹ء میں دیا، پہلے اس نام کا دعویٰ نہیں کیا گیاتھا۔

اس عبارت میںمصنف کی 'روشن خیالی' (یعنی اسلامی حمیت کا فقدان) بھی قابل غور ہے، وہ بالکل مستشرقین اور مسیحی مصنّفین کے اتباع میں صلیبی جنونیوں کو 'مسیحی مجاہدین' کہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ پہلے 'مسلمان عالم دین' ہیں جوصلیبیوں کے لئے 'مجاہدین' کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔

یہودیوں کے حق ِتولیت کے پرجوش علمبردار محقق ممدوح نے 'خروج' سموئیل، اور تواریخ جیسے عہدنامہ عتیق کے حصوں سے جو معلومات نقل کی ہیں، ان سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہودی جس 'ہیکل سلیمانی' کی مسجد ِاقصیٰ پر تعمیر نو کرناچاہتے ہیں، وہ عین اسی مقام پر تباہ کیاگیا تھا وہ زیادہ سے زیادہ یہ بتاسکے ہیں کہ بنی اسرائیل نے کسی دور میں 'ہیکل سلیمانی' تعمیر کیا تھا۔

مصنف کی طولانی 'تاریخ نویسی' کا خلاصہ یہ ہے :

مصریوں کی غلامی سے رہائی کے بعد بنی اسرائیل نے ایک متحرک عبادت گاہ (خیمہ اجتماع) بنائی۔ ۱۴۵۰ق م میں حضرت یوشع 2 کے یروشلم دوبارہ فتح کرنے تک انکی عبادت گاہ یہی 'خیمہ اجتماع' ہی رہی۔ حضرت داؤد ؑ نے مستحکم سلطنت کی بنیاد رکھی، انہیں باقاعدہ مرکز ِعبادت تعمیر کرنے کی ہدایت ملی۔ اسی مقصد کیلئے انہوں نے ارنان یبوسی نامی شخص سے اس کاایک مکان خریدا جو کوہِ موریا پر واقع تھا۔ اپنی زندگی میں وہ یہ عبادت گاہ تعمیرنہ کرسکے۔ حضرت سلیمان 2 نے اپنے والد کے بتائے ہوئے نقشے کے مطابق متعینہ جگہ پر ایک شاندار عبادت گاہ تعمیر کرائی جو تاریخ میں ہیکل سلیمان (Solomani's Temple) کے نام سے معروف ہے، اس کی تعمیر ۹۵۰ ق م میں مکمل ہوئی۔ ۵۸۶ ق م میں بنو نصر نے حملہ کرکے اسکو برباد کردیا۔

مصنف کے پیش کردہ محولہ بالا یہودی موقف کی رو سے ہیکل سلیمانی 'کوہِ موریا' پر تعمیر کیاگیا تھا۔ موصوف کا فرض تھا کہ ثابت کرتے کہ یہی وہ کوہِ٭ موریاہے جس پر موجودہ مسجد اقصیٰ واقع ہے مگر وہ یہ اہم معلومات فراہم کرنے کی بجائے بڑے آرام سے آگے بڑھ گئے۔ اس کے بعد مصنف نے حضرت سلیمان کی ایک طویل دعا نقل فرمائی ہے جس میں فرماتے ہیں: ''واضح ہے کہ بنی اسرائیل کیلئے اس عبادت گاہ کو اسی طرح ایک روحانی مرجع و مرکز اور 'مثابۃ للناس' کی حیثیت دے دی گئی تھی جس طرح بنی اسمٰعیل کے لئے مسجد احرام کو۔'' اس دعا میں حضرت سلیمان کے یہ الفاظ: ''اس گھر کی طرف جو میں نے تیرے نام کیلئے بنایا ہے'' بار بار آئے ہیں۔ یہ دعا نقل فرمانے کے بعد مصنف ہمارے علم میں پھر 'اضافہ' فرماتے ہیں :

''اس عبادت گاہ کو بنی اسرائیل کے ایک مذہبی و روحانی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی عظمت و شوکت اور دنیاوی جاہ و جلال کے ایک نشان کی حیثیت بھی حاصل تھی۔''

ہم کہتے ہیں کہ بھلے اسے یہ 'جاہ و جلال' ضرور حاصل ہوگا، مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ یہ عبادت گاہ یعنی ہیکل سلیمانی اس جگہ تعمیر ہواتھا جہاں اس وقت 'مسجد ِاقصیٰ' موجود ہے۔

٭۱۱۱۹ء میں شاہ بالڈون (Baldwin) دوم نے مسیحی سرداروں کو موریا پہاڑی پر ایک عمارت بنا کر دی جس کا نام ہیکل سلیمانی Temple of Soloman رکھا۔ اس ہیکل کے اعلیٰ عہدیداروں کو ہیکل سلیمانی کے سردار (Kinghts of Soloman's Temple) کا نام دیا گیاجو بعد میں نائٹس ٹمپلرز کہلائے۔'' (فری میسزی از بشیر احمد: ص۳۱)

اس بیان کی رو سے موریہ پہاڑی پر بنایا جانے والا ہیکل ۱۱۱۹ء میں تعمیر ہوا۔ اس کا حضرت سلیمان علیہ السلام سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ کیا یہی وہ ہیکل ہے جس کی تعمیر نو کی وکالت کی جا رہی ہے؟ (ع۔ص)

حق تولیت سے یہود کی معزولی

اشراقی مصنف نے اس موضوع پرقرآنِ مجید اور احادیث ِمبارکہ سے جس طرح استنباط فرمایا ہے،چاہیے تو یہ تھا کہ اس پر کڑی تنقید کی جاتی، مگر خدشہ یہ ہے کہ 'اہل اشراق' اسے 'دشنام طرازی' قرار دیتے ہوئے اپنے وضع کردہ معیارِ اخلاق کے د فتر کھول کر بیٹھ جائیں گے جیسا کہ ان کی عادت ہے۔ (اشراق، اکتوبر ۲۰۰۱ء)

اور پھر 'اہل تدبر' بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس نقد و تبصرہ پر 'عامیانہ انداز' ہونے کا فتویٰ صادر فرمائیں گے جیسا کہ وہ 'محدث' کے مولانا امین احسن اصلاحی کے متعلق خصوصی شمارہ کے بارے میںکرچکے ہیں۔ (تدبر: ستمبر ۲۰۰۱ء)

اسی لئے ان کی اس 'حساسیت' کا خیال رکھتے ہوئے ہم یہاں اشارات پر ہی اکتفا کرتے ہیں لیکن اُمید ہے'اہل اشراق' اپنے متعلق اس قدر تنقید تو برداشت کر ہی لیں گے جس قدر انہوں نے 'اہل خلافت' ('تنظیم اسلامی' کے امیر) اور دیگر دینی سکالروں کے متعلق المیزان میں روا رکھی ہے۔ میزانِ انتقاد پہ دوسروں کو تولنا ویسے بھی ان کا ہی استحقاق تو نہیں ہے!!

ملت ِاسلامیہ کا بڑا واضح موقف ہے کہ یہودی ایک فتنہ گر قوم ہیں، یہ دنیاکی واحد قوم ہے جس کے ہاتھ اس قدر انبیا کے قتل سے رنگے ہوئے ہیں، انہوں نے ہمیشہ عہدشکنی کی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ صحائف میں تحریف کامکروہ کردار ادا کیا اور یہ حق بات کو چھپا کر ہمیشہ دجل و فریب اورتلبیس کوشی سے کام لیتے رہے ہیں۔ قرآن مجید نے سورۃ البقرہ اور دیگر مقامات پر ان کے گھناؤنے جرائم پر مبنی 'چارج شیٹ' پیش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جرائم کی پاداش میں اس خبیث قوم کو دنیا کی راہنمائی کے منصب سے معزول کرکے جناب رسالت مآب کے ذریعے بنو اسمٰعیل کے سر پر نبوت کا تاج رکھا جو قیامت تک ان کے لئے و جہ ِفضیلت و تفاخر رہے گا۔ اس لئے انبیا کی سرزمین یعنی فلسطین اور مسجد ِاقصیٰ پر ان کا کسی قسم کا حق باقی نہیں رہا۔

اُمت ِ مسلمہ کا یہ موقف ہے کہ جس طرح انبیا کے مشن کی وراثت اُمت ِ مسلمہ کو منتقل ہوگئی ہے اس طرح مسجد ِاقصیٰ کی ملکیت و تولیت کا حق بھی مسلمانوں کو منتقل ہوگیا ہے۔ غزوئہ بدر کے موقع پر مسجد ِحرام پرمشرکین کی تولیت کی منسوخی کے متعلق سورۃ الانفال کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی :

﴿وَما لَهُم أَلّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُم يَصُدّونَ عَنِ المَسجِدِ الحَر‌امِ وَما كانوا أَولِياءَهُ ۚ إِن أَولِياؤُهُ إِلَّا المُتَّقونَ وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ‌هُم لا يَعلَمونَ ﴿٣٤﴾... سورة الانفال

''اور ان میں کیا بات ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے، حالانکہ وہ مسجد ِحرام میں آنے سے لوگوں کوروکتے ہیں، جبکہ وہ اس پر تولیت کا حق بھی نہیں رکھتے۔ اس کی تولیت کا حق تو صرف پرہیزگاروں کا ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔''

اس آیت میں واضح طور پر فرمایا گیا کہ مشرکین مسجد ِحرام پر تولیت کا حق نہیں رکھتے۔ تولیت کا حق تو صرف پرہیزگاروں کو ہے۔ اگر مشرکین پرہیز گار نہ ہونے کی وجہ سے مسجد حرام کی تولیت کے حق دار نہیں ہیں تو یہود اس قدر گھناؤنے جرائم میں ملوث ہونے اور مغضوب علیہم ہونے کے باوجود مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے حق دار کیسے ہوسکتے ہیں؟ اشراق کے مضمون نگار اس آیت ِمبارکہ کے نزول کے بعد رسول اکرم کے طرزِ عمل پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:

''لیکن بیت اللہ پر مشرکین کی تولیت کے حق کو خود رسول اللہ  نے عملاً اس وقت تک چیلنج نہ کیا جب تک ۹ ہجری میں قرآنِ مجید میں اس کے بارے میں واضح ہدایت نازل نہیں ہوگئی۔ حتیٰ کہ ۸ ہجری میں فتح مکہ کے بعد بھی جب مشرکین کی سیاسی قوت و شوکت بالکل ٹوٹ چکی تھی اور بیت اللہ کا حق تولیت ان سے چھین لینے میںکوئی ظاہری مانع موجود نہیں تھا، آپ نے کعبہ کی تولیت کے سابقہ انتظام ہی کو برقرار رکھا اور اس سال مسلمانوں نے اسی انتظام کے تحت ارکانِ حج انجام دیئے۔ مشرکین کو بھی اس سال حج بیت اللہ سے نہیں روکا گیا۔''

مذکورہ بالا استدلال محض کج فہمی اور کج بحثی کے زمرے میں آتا ہے۔ ورنہ مصنف موصوف کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اس استدلال کا اطلاق مسجد ِاقصیٰ پر نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا غور فرمائیے ۲ ہجری سے لے کر ۸ ہجری تک مشرکین سے تولیت لینے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ ۸ہجری میں جب مکہ فتح ہوا تو آپؐ کو کعبۃ اللہ کی چابیاں پیش کی گئیں جنہیں آپ ؐنے کعبۃ اللہ کے سابقہ متولی (عثمان بن طلحہ) کے حوالہ کردیا۔ آپ کا یہ اقدام یہ ثابت نہیں کرتا کہ آپؐ کو قرآنِ مجید کے مذکورہ حکم کی پروا نہیں تھی۔ بلکہ آپؐ کا یہ فیصلہ اس عظیم الشان اور عدیم النظیر تالیف ِقلوب کے مظاہروں میں سے ایک تھا جس پر انسانیت ہمیشہ فخر کرے گی۔ آپ ؐکے اس عمل مبارک سے جو نتیجہ اشراقی مصنف نے نکالا ہے، وہ درست نہیں ہے۔

فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے ابوسفیان کے گھر کے متعلق فرمایا:

''اگر کوئی ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا تو وہ محفوظ ہوگا۔''

ایسا آپ نے اس سے پہلے یا بعد میں کبھی نہیں کیاتھا۔ آپ کی مروّت، تالیف ِقلب اور وسعت ِقلبی کا نتیجہ تھاکہ کعبہ کے متولی جلد ہی مسلمان ہوگئے اور بعد میں بھی یہ سعادت ان کے خاندان کو حاصل رہی۔ آپؐکی نگاہِ بصیرت دیکھ رہی تھی کہ وقتی طور پر کعبہ کی تولیت مشرکوں کے پاس رہنے دینے سے کس قدر عظیم نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ دراصل یہ نبی کریم کی ان مشرکین کو مسلمان کرنے کی حکمت ِعملی تھی۔آپؐ کے اس اسوۂ حسنہ کو مسجد اقصیٰ کے معاملے میں آخر کس طرح پیش کیا جاسکتا ہے۔ جب مسلمانوں نے مسجد ِاقصیٰ کو فتح کیا تو یہودیوں میں سے کوئی بھی اس کا متولی موجود نہ تھا اور نہ ہی کسی سے اس طرح کی تالیف ِقلب کے اظہار کی ضرورت پیش آئی۔ حضرت عمرؓ نے جس طرح عیسائی پادریوں سے حسن سلوک سے کام لیا، ان سے یہ بعید نہ تھا کہ وہ یہودیوں سے بھی ویسا سلوک کرتے۔ جب یروشلم کی فتح کے موقع پر کوئی ہیکل سلیمانی تھا نہ اس کا متولی، تو پھر فتح مکہ اور فتح یروشلم کے واقعات کو ایک سطح پر لانا قیاس مع الفارق ہے۔

اشراقیوں کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ یہ لوگ احادیث کے بظاہر منکر تو نہیں ہیں، مگر کتب ِاحادیث کو 'تاریخ'کا درجہ دے کر زیادہ قابل اعتنا بھی نہیں سمجھتے۔ اگر اشراقی محقق احادیث کا مطالعہ فرما لیتے تو وہ بات شاید کبھی نہ کرپاتے جو انہوں نے غیر ذمہ داری سے کر ڈالی۔ وہ تو یہ ثابت کرنا چاہتے ہیںکہ فتح مکہ کے تقریباً ایک سال بعد تک رسول اللہ نے کعبہ کی تولیت کی ذمہ داری مشرکین کو دئیے رکھی، جو کہ درست نہیں ہے۔ اصل حقائق یہ ہیں کہ فتح مکہ کے بعد کعبۃ اللہ کی تولیت مشرکوں کے پاس چند گھنٹے بھی نہ رہی۔ شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کی 'سیرۃ الرسول ؐ' سے درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

''اس کے بعد آپؐ نے عثمان بن طلحہ سے چابی لی، بیت اللہ کا دروازہ کھولا، اس میں بت رکھے تھے، ان میں ابراہیم اور اسماعیل 3 کے مجسّمے بھی تھے، جن کے ہاتھوں میں قسمت آزمائی کے تیر تھمائے ہوئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان کو برباد کرے، بخدا! انہوں نے ان تیروں کے ساتھ کبھی قسمت آزمائی نہیں کی تھی۔ آپؐ نے بیت اللہ کے اندر موجود سب تصویروں کو مٹانے اور تمام بتوں کوتوڑنے کا حکم دیا۔ پھر آپؐ ، بلالؓ، اسامہؓ اور عثمان ؓ چار آدمی بیت اللہ میں داخل ہوئے، تو دروازہ بند کردیا گیا۔ دروازے کے سامنے کی جانب دیوار کی طرف بڑھے، جب تقریباً تین ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا تو آپؐ نے کھڑے ہوکر وہاں نماز پڑھی پھر دروازہ کھول کر باہر نکلے۔ قریش نے صفیں باندھیں اور مسجد میں منتظر تھے کہ دیکھیں آج ان کا کیا حشر ہوتا ہے۔ آپؐ نے خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر اعلان کیا : اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے، اپنے بندے کی امداد فرمائی ہے اور اکیلے نے سب دشمن فوجوں کو شکست دے دی ہے۔ آج زمانۂ جاہلیت کی فضیلت کے طریقے، مال اور خون کے قدیم دعوے سب ختم کئے جاتے ہیں۔ ہاں بیت اللہ کی دربانی اور حاجیوں کو پانی پلانے کا اعزاز بدستور قائم رہے گا...

''پھر فرمایا: اے جماعت ِقریش! تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تم سے کیا سلوک کروں گا؟'' سب یک زبان ہوکر بولے۔ ہم بہتر سلوک کی توقع کرتے ہیں، آپؐ معزز بھائی اور معزز بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ''اگر یہ بات ہے تو میں آج تم سے وہی بات کہوں گا جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کی تھی:﴿قالَ لا تَثر‌يبَ عَلَيكُمُ اليَومَ...٩٢﴾... سورة يوسف

''آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارا قصور معاف فرمائے، اور وہی سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔''جاؤ تم آزاد ہو ...!!

پھر آپؐ مسجد ِحرام میں بیٹھے۔ بیت اللہ کی چابی آپؐ کی ہاتھ میں تھی، حضرت علیؓ نے درخواست کی! ''یارسول اللہ! چابی ہمیں دے کر بیت اللہ کی دربانی اور حاجیوں کو پانی پلانے کے دونوں اعزاز سے ہمیں سرفراز فرمائیے۔'' ایک روایت میں ہے کہ یہ درخواست حضرت عباسؓ نے آپؐ کے سامنے پیش کی تھی مگر آپؐ نے فرمایا: 'عثمان بن طلحہ کہا ں ہے؟'' اس کو بلایا گیا تو آپؐ نے یہ کہتے ہوئے کہ آج نیکی اور وفاداری کا دن ہے، چابی عثمان کی طرف بڑھائی اور فرمایا: عثمان! ''اپنی یہ چابی لے لو'' ایک روایت میں ہے کہ آپ یہ چابی حضرت عباسؓ کو دینا چاہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اُتاری:

﴿إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُ‌كُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها...٥٨﴾... سورة النساء

''اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ امانتیں ان کے اہل کو لوٹائی جائیں ۔''

علامہ ابن سعد نے 'طبقات' میں عثمان بن طلحہ کا بیان نقل کیا ہے کہ

ہم خانہ کعبہ کا دروازہ ہفتہ میں سوموار اور جمعرات ، دو دن کھولا کرتے تھے۔ ایک دن رسول اکرم خانہ کعبہ میں داخل ہونے لگے، تو میں نے دروازہ بند کردیا اور آپؐ کو کچھ نازیبا کہا۔ آپؐ نے میری اس حرکت کو برداشت کیا اور فرمایا: ''عثمان! ایک دن آئے گا تو دیکھے گا کہ یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی۔ میں جسے چاہوں گا، دوں گا۔ میں نے کہا: یہ تب ہوگا، جب قریش ہلاک ہوجائیں گے۔'' آپ ؐ نے فرمایا: ''نہیں! بلکہ اس دن قریش زندہ ہوں گے اور عزت پائیں گے۔'' آپؐ خانہ کعبہ میں داخل توہوگئے مگر آپؐ کی یہ بات میرے دل میں جم گئی اور میں نے یقین کرلیا کہ جو آپؐ نے فرمایا ہے، ایسا ہوکر رہے گا۔

جب مکہ فتح ہوا تو آپؐ نے فرمایا: ''عثمان! چابی لاؤ'' میں نے چابی لاکر دے دی۔ آپؐ نے وہ چابی اپنے ہاتھ میں لی، پھر یہ کہتے ہوئے واپس کردی: ''یہ چابی لو، یہ ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی۔ اگر کوئی تم سے چھینے گا تو وہ ظالم ہوگا۔ عثمان! اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے گھر کا امین بنایا ہے، اس کی آمدنی دستور کے مطابق اپنے استعمال میں لاؤ۔'' پھرجب میں جانے لگا، تو آپؐ نے مجھے بلایا اور فرمایا: ''جو کچھ میں نے کہا تھا، وہی ہوا یا نہیں؟'' عثمان کہتا ہے: مجھے آپؐ کی وہ بات یا دآگئی جو آپؐ نے ہجرت سے قبل مجھے مکہ میں فرمائی تھی۔ میں نے کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ ؐ اللہ تعالیٰ کے رسول برحق ہیں۔'' (یعنی میں مسلمان ہوگیا) (سیرۃ الرسول: صفحہ ۵۴۱ تا۵۴۴)

قارئین کرام! اسلامی تاریخ کا یہ ایمان افروز واقعہ ہم نے تفصیل سے نقل کردیا ہے، اب آپ ہی اندازہ فرمائیے کہ رسولِ اکرم1 نے عثمان بن طلحہ کو کعبۃ اللہ کی چابیاں کس روحانی فضا میں واپس کی تھیں اور پھر آپؐ کی کرم گستری کا عثمان پر کس قدر جلد اثر ہوا۔ کیا ہم توقع رکھ سکتے ہیں کہ اشراقی مصنف ان تاریخی حقائق کو پڑھنے کے بعد اپنے اس معکوس استنباط سے رجوع فرمائیں گے؟ اللہ پاک ہم سب کو ہدایت دے !!

۹ ہجری میں سورۃ براء ۃ کی یہ آیات نازل ہوئیں :

﴿ما كانَ لِلمُشرِ‌كينَ أَن يَعمُر‌وا مَسـٰجِدَ اللَّهِ شـٰهِدينَ عَلىٰ أَنفُسِهِم بِالكُفرِ‌ ۚ أُولـٰئِكَ حَبِطَت أَعمـٰلُهُم وَفِى النّارِ‌ هُم خـٰلِدونَ ١٧ إِنَّما يَعمُرُ‌ مَسـٰجِدَ اللَّهِ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ وَأَقامَ الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَى الزَّكو‌ٰةَ وَلَم يَخشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسىٰ أُولـٰئِكَ أَن يَكونوا مِنَ المُهتَدينَ ١٨﴾... سورة التوبة ''مشرکوں کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے کفر کی شہادت خود دیتے ہوئے، وہ اللہ کی مساجد کو آباد کریں۔ ان کے اعمال اکارت ہیں اور وہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے۔ اللہ کی مساجد کو آباد کرنے کا حق تو صرف ان کو ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ اداکرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ انہی لوگوں کے ہدایت یافتہ ہونے کی اُمید ہے۔''

﴿فَلا يَقرَ‌بُوا المَسجِدَ الحَر‌امَ بَعدَ عامِهِم هـٰذا...٢٨﴾... سورة التوبة

''لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد ِحرام کے قریب نہ آئیں۔''

قارئین کرام! اس آیت ِمبارکہ کو غور سے پڑھنے کے بعد اشراقی مصنف کا 'علمی استدلال' بھی ملاحظہ فرمائیے، فرماتے ہیں:

''اس حکم کے نازل ہونے کے بعد ۹ ہجری میں حج کے موقع پر سیدنا علی ؓ نے یوم النحر میںسورۃ براء ت کی ابتدائی چار آیات پڑھ کرسنائیں جن میں مشرکین پر اتمامِ حجت اور ان سے اللہ ورسول کی براء ت کا اعلان ہے، اور پھر اعلان کردیا کہ آج کے بعد نہ کوئی مشرک بیت اللہ میں داخل ہوسکے گا ... ۹ ہجری میں جب سورۃ براء ۃ میں مشرکین پر اتمامِ حجت اور ان سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی براء ت کا اعلان کیا گیا تو اس کے ساتھ قرآن مجید میںباقاعدہ یہ حکم نازل ہوا کہ اب بیت اللہ پرمشرکین کسی قسم کاکوئی حق نہیںرکھتے۔ لہٰذا آج کے بعد ان کو مسجد ِحرام کے قریب نہ آنے دیا جائے۔''

اس آیت کے نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں :

''اس اُصول کو سامنے رکھیں تو مذکورہ استدلال کے حوالے سے سب سے پہلا یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا قرآن و سنت میںکوئی ایسی نص موجود ہے جس میں یہود کے مذکورہ مذہبی و اخلاقی جرائم کی بنیاد پر ان کے حق تولیت کی تنسیخ کا فیصلہ کیا گیا ہو؟ کیا جس طرح مسجد ِحرام پر مشرکین مکہ کے حق تولیت کی تنسیخ کا دو ٹوک اعلان قرآن و سنت میں کیا گیا ہے، اس طرح مسجد ِاقصیٰ اور یہود کے بارے میں بھی کوئی صاف اور صریح نص وارد ہوئی ہے؟ ہمارے علم کی حد تک اس کا جواب نفی میں ہے اور قرآن و سنت کی تصریحات، سیرۃ ِنبوی، تاریخ اسلام اور فقہا کی آرا میں متعدد قرائن اس کے خلاف ہیں۔'' (اشراق: اگست ۲۰۰۳ء)

مصنف کے ان مباحث کے متعلق ہماراتبصرہ یہ ہے کہ اس طائفہ نو اعتزال نے اپنی محققانہ خیال آرائیوں کیلئے قرآن و سنت کو بازیچہ اطفال بنا رکھا ہے، جب چاہتے ہیں ان کو اپنے عقل پرستانہ استدلال کا تختۂ مشق بنا دیتے ہیں۔ اس ضمن میں چندباتیں قابل غور ہیں:

1. سورۃ براء ت کی مندرجہ بالا آیات کا تولیت کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں، ان آیات میں مشرکوں کو بیت اللہ میں داخل ہونے سے روکا گیا ہے، تو پھر فاضل مصنف نے اس سے مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے مسئلہ کے لئے اُصول کہاں سے وضع کرلیا؟

2. ۹ ہجری میں مشرکین سے صرف براء ت کاعلان ہوا، کعبۃ اللہ کی تولیت کامسئلہ تو پہلے ہی طے کردیا گیا تھا، یہی و جہ ہے کہ اس میں تولیت کاذکر نہیں ہے۔ تو پھر اس سے مصنف کے استدلال کاجواز آخر کیا رہ جاتا ہے؟

3. کعبۃ اللہ کی تولیت کے متعلق حکم ۲ ہجری میں ہی نازل ہوا، اس کی عملی صورت ۸ ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر وقوع پذیر ہوگئی۔

4. مصنف اگر معتزلائی روشن خیالی کے زیر اثر نہ ہوتے تو یہ سوال کبھی نہ کرتے کہ''کیا یہود کے حق تولیت کی تنسیخ کے لئے قرآن و سنت میں کوئی نص موجود ہے۔'' مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے متعلق ایک طرح کے الفاظ کی توقع رکھنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ رسولِ اکرم1 کی زندگی میںمسجداقصیٰ پر مسلمانوں کو فتح حاصل نہیں ہوئی، تو اس کے متعلق احکامات قرآن و سنت میں کیسے وارد ہوجاتے؟

5. مسجد ِ حرام کے متعلق احکامات کے وارد ہونے کے بعد 'مسجد اقصیٰ' کے متعلق الگ سے نص کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ مذکورہ آیات میں بہت واضح طور پر ارشاد ہے کہ'' مسجد ِحرام کی تولیت کاحق پرہیزگاروں کو ہے۔ مشرکوں کو حق نہیں ہے کہ اپنے کفر کی شہادت خود دیتے ہوئے وہ اللہ کی مساجد کو آباد کریں۔''

مصنف نے غور نہیں فرمایا ورنہ انہیں یہاں بھی نص قرآنی نظر آہی جاتی۔ سورۃ برأت کی آیات میں الفاظ 'مساجد اﷲ' ہیں، یعنی جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اگر یہ حکم صرف مسجد ِحرام تک ہی محدود ہوتا، تو جمع کا صیغہ لانے کی کیا ضرورت تھی۔کیا 'اللہ کی مسجدوں' میں مسجد ِاقصیٰ شامل نہیں ہے۔ اگر ہے تو پھر اس پر اس آیت کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا۔

اس آیت میں اللہ کی مساجد کی تولیت کا حق 'ہدایت یافتہ' گروہ کو دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے واضح طور پر مسلمانوں کو 'ہدایت یافتہ' گروہ اور یہودیوں کو گمراہ اور مغضوب کہا ہے۔ اور ہدایت سے مراد 'الکتاب' ہے۔ گویا الکتاب پر ایمان رکھنے والا گروہ ہی ہدایت یافتہ ہے۔ تو پھر اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی مساجد بشمول مسجداقصیٰ پر تولیت کا حق صرف اور صرف مسلمانوں کو ہے۔

6. اہل اشراق کی یہ عادت بن چکی ہے کہ جو بات ان کی عقل میں نہ آئے اس کے لئے فوراً قرآن و سنت سے 'صریح نص' پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔اس سے یہ تاثر دینا مقصود ہوتا ہے کہ ان کا موقف تو عین قرآنی تعلیمات کے مطابق ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ تو مسجداقصیٰ کی تولیت کی منسوخی کے لئے قرآن مجید سے 'صریح نص' تلاش کرتے پھر رہے ہیں، ہم آپ سے کہتے ہیں کہ آپ قرآن مجید سے صریح نص ڈھونڈ کر دکھا دیں جس میں پانچ نمازوں کا حکم اور ان کے اوقات مقرر کئے گئے ہوں، یہ تو اتنی اہم بات ہے کہ آپ بھی روزانہ ہی اس پر عمل کرتے ہیں ... یہ تجدد پسندوں کا وہ گروہ ہے جس نے عقلی موشگافیوں میں پڑ کر شادی شدہ زانی کے لئے 'رجم' کی سزا سے انکار کردیا ہے۔

نجانے قرآن و سنت کی وہ کون سی تصریحات ہیں اور سیرتِ نبوی کے وہ کون سے واقعات ہیں جس سے مصنف کے خیال میں یہودیوں کامسجد اقصیٰ پر حق تولیت ابھی تک قائم ہے؟ جوکچھ انہوں نے اپنے مقالہ میں پیش کیا ہے، اس سے تو ان کے موقف کی نفی ہوتی ہے نہ کہ تصدیق۔ ہم منتظر ہیں کہ وہ اپنے کسی دوسرے 'علمی مضمون' میں ان 'تصریحات' پر روشنی ڈال کر ہمیں مستفید فرمائیں گے۔

حق تولیت کی منسوخی کے خلاف اشراقی دلائل

اشراقی مضمون نگار نے اس مضمون کے آغاز میںدعویٰ کیا تھا کہ وہ اس موضوع کا 'قرآن و سنت کی روشنی میں بے لاگ' جائزہ لیں گے اور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں 'عدل وانصاف کا دامن کسی حال نہیں چھوڑیں گے۔'' اگر تو 'بے لاگ' جائزے کا ان کے ذہن میںتصور یہ ہے کہ اپنے عقلی نکتہ آرائیوںکے مقابلے میں ملت اسلامیہ کے اجماعی موقف کا ردّ پیش کردیاجائے اور اپنے پہلے سے قائم کردہ مفروضات کو 'تحقیق' کے نتیجے میں درست قرار دیا جائے، تو بلاشبہ مصنف 'بے لاگ' جائزہ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر ان کے پیش نظر 'بے لاگ' کاوہی مطلب ہے جو کہ عام طور پر لیا جاتا ہے تو پھر مشرکوں (یہودیوں) کی ہم نوائی میں شرمندگی کے سوا شاید ہی ان کے مقدر میں اور کچھ آسکے۔

قرآنِ مجید نے یہ تو ہدایت دی ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ان کے خلاف ناانصافی پرنہ اُبھارے، مگر قرآن مجید کی یہ تعلیمات ہرگز نہیں کہ کسی غیر قوم کی دوستی تمہیں اپنی قوم یعنی ملت ِاسلامیہ کی توہین وتخفیف پر اُبھارے، اشراقی مصنف نے درحقیقت مؤخر الذکر 'کارنامہ' انجام دیا ہے، اب اس پر اگر وہ اِتراتے ہیں تو پھر ان کو 'پندار' سے کون روک سکتا ہے!!

ملت ِاسلامیہ کے جید علما نے مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے متعلق یہودیوں کے حق کی منسوخی کے متعلق جو استدلال کیا ہے، نوخیز اشراقی سکالر اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ موصوف نے جو دلائل قائم کئے ہیں، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے :

1. اللہ کے نبیوں کے تعمیر کردہ خانہ خدا کی تولیت کے معاملے میں بھی مشرکین اور اہل کتاب کے مابین فرق کو لازماً ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔

2. مشرکین مکہ کے برخلاف اہل کتاب کو محض سیاسی لحاظ سے مغلوب کرنے تک حکم کو محدود رکھا گیا ہے اور مذہبی مراکز پران کے حق تولیت کو اشارۃً بھی چیلنج نہیں کیا گیا۔

3. رسول اکرم﴿کے ارشادات میں کہیں بھی مسجد اقصیٰ کی تولیت کی قانونی و شرعی حیثیت کو زیر بحث نہیں لایا گیا اورنہ اس حوالہ سے آپؐ نے صحابہ ؓ کو کوئی ہدایت دی۔

4. صحابہ ؓ کے ذہن میں مسجد ِاقصیٰ کے حق تولیت کا کوئی تصور نہ تھا۔

5. حضرت عمرؓ کے عہد ِخلافت میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو امیر المؤمنین نے یہاں کے باشندوں کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا لیکن مسجد اقصیٰ کی تولیت کا معاملہ اس میں بھی زیربحث نہ آیا۔

6. حضرت عمرؓ مدینہ منورہ میں غیرمسلموں کو ضرورت کے تحت تین دن سے زیادہ قیام کی اجازت نہیں دیتے تھے لیکن بیت المقدس کے حوالے سے اس قسم کی کوئی ہدایت اسلامی قوانین میں نہیں دی گئی۔ حرمین شریفین اور بیت المقدس کے احکام میں اس فرق کی آخر کیا توجیہ کی جائے؟

7. فقہ اسلامی کے وسیع ذخیرے میں اس بات کی تصریح نہیں تھی کہ مسجد اقصیٰ کو اہل کتاب کے تصرف سے نکال کر اہل اسلام کی تولیت میں دے دیا گیا ہے۔

مصنف کے ان دلائل کے ردّ میں ہماری معروضات درج ذیل ہیں:

1. تمام معاملات میں مشرکین اوراہل کتاب کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری نہیں ہے۔ بعض، بالخصوص سیاسی نوعیت کے، معاملات میں یہود سے مشرکین کی نسبت زیادہ سخت برتاؤ کیا گیا۔ مدینہ اور خیبر سے رسولِ اکرم کی زندگی میں یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا مگر فتح مکہ کے وقت مشرکین کے ساتھ رحم دلی کا جو سلوک جناب رسالت مآب نے فرمایا، اس سے ہرشخص واقف ہے۔ رسولِ اکرم اور خلفائے راشدینؓ کے اَدوار میں ریاست ِمدینہ کی یہودیوں کے متعلق جوپالیسی رہی، اس کو سامنے رکھا جائے تو یہود مشرکین سے بھی زیادہ سخت پالیسی کے مستحق سمجھے جائیں گے۔ اشراقی مصنف نے قیاس مع الفارق کا شکار ہوکر غلط استدلال کیا ہے، ان کے ذہن پر صرف 'تولیت' ہی سوار ہے، انہیں اس مسئلہ کو اسلامی تاریخ کے وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

2. 'اہل کتاب کوسیاسی لحاظ سے مغلوب کرنے تک محدود' رکھنے کا استدلال محض مصنف کی اختراع اور تجدد پسندی ہے، انہیں یہ خیال بالکل ہی نہیں رہا کہ مدینہ اور خیبر میں یہودیوں کومغلوب کرلینے تک اکتفا نہ کیا گیا بلکہ انہیں جزیرئہ عرب سے بے دخل بھی کیا گیا۔ مزید برآں مصنف نے قرآنِ مجید کی جس آیت سے استنتاج (Inference) فرمایا ہے ، وہ بھی ان کے فکر ِاعتزال سے متاثر ہونے کا شاخسانہ ہے، ورنہ اس آیت سے قطعاً وہ ثابت نہیںہوتا جو وہ فرماتے ہیں، وہ آیت درج ذیل ہے:

﴿قـٰتِلُوا الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَلا بِاليَومِ الءاخِرِ‌ وَلا يُحَرِّ‌مونَ ما حَرَّ‌مَ اللَّهُ وَرَ‌سولُهُ وَلا يَدينونَ دينَ الحَقِّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حَتّىٰ يُعطُوا الجِزيَةَ عَن يَدٍ وَهُم صـٰغِر‌ونَ ٢٩﴾... سورة التوبة

''اہل کتاب کے ساتھ، جو نہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ دین حق کی پیروی اختیار کرتے ہیں، برسر جنگ ہوجاؤ یہاں تک کہ وہ زیر دستی قبول کرکے ذِلت کی حالت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہوجائیں۔''

اس آیت میں اگر مذہبی مراکز پر یہودیوں کے حق تولیت کا ذکر نہیں ہے، تو اس میں تعجب کا کون سا قرینہ ہے۔ جزیرہ نماعرب میں آخر کون سی ایسی عبادت گاہ تھی جس کی تولیت تصفیہ طلب تھی اور اس کے متعلق قرآنی فیصلہ صادر کیاجاتا؟ یہ عجیب منطق ہے کہ چونکہ اہل کتاب کو مغلوب کرنے اور ان سے جزیہ لینے جیسے احکامات پر مبنی آیت میں اگر تولیت کاذکر نہیں ہے تو اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہود کا حق تولیت منسوخ نہیںہوا۔ ایسی منطق سے تو ہر معقول بات کی تردید کی جاسکتی ہے، مسئلہ تولیت کو آخر کیا خصوصیت حاصل ہے۔ کسی چیز کے عدمِ ذکر و سکوت سے اس کا وجود ثابت کرناکوئی مستند استدلال نہیں۔

3. اگر رسولِ اکرم کے ارشادات میںمسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے متعلق کوئی صریح ہدایت موجود نہیں ہے، تو یہ بات قابل فہم ہے اور عقل عام کا تقاضا ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا، کیونکہ خانہ کعبہ اور مسجد ِحرام کی طرح مسجد ِاقصیٰ پرفوری قبضے کا کوئی معاملہ آپؐکے پیش نظر تھا ہی نہیں۔ خانہ کعبہ کی طرح وہاں کوئی عمارت بھی نہ تھی جس کی تولیت کی بات کی جاتی۔ ثانیاً قرآنِ مجید میںچونکہ مسجد ِحرام کے حوالے سے ایک اُصول بیان کردیا گیاتھا کہ'اللہ کی مساجد' پر تولیت کا حق صرف ہدایت یافتہ یعنی مسلمانوںکو ہے، اسی لئے آپ نے اس کی وضاحت ضروری نہ سمجھی، ثالثاً اس وقت یہ کوئی اتنا اہم مسئلہ بھی نہ تھا ورنہ کسی نہ کسی صحابی نے آپؐ سے اس کی وضاحت ضرور طلب کی ہوتی، مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا مسئلہ بعد میں سامنے آیا، درحقیقت یہ کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں کیونکہ کوئی حریف گروہ اس کے استحقاق کا دعویدار ہی نہیں تھا۔

4. صحابہ کرام ؓ کے ذہن میں مسجد اقصیٰ کی مفروضاتی تولیت کا مسئلہ کیونکر آتا؟ ان کے دور تک توکسی یہودی نے وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا دعویٰ نہیں کیاتھا۔ صحابہ کرام ؓ تو قرآن مجید کی سورۃ الانفال کی روشنی میںبالکل واضح سوچ رکھتے تھے کہ مسجد اقصیٰ کے متعلق اگر تولیت کاکبھی مسئلہ سامنے بھی آیا تو اس پرمسلمانوں کو ہی حق حاصل ہوگا۔ وہ دور از کار تاویلات میںجانے والے نہ تھے جس طرح کی معتزلہ اور ان کی روحانی ذرّیت آج کل تاویل تراشی میں مبتلا نظر آتی ہے۔

5. حضرت عمرؓ کے معاہدے میں تولیت کے ذکر کی توقع رکھنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ نجانے مصنف نے یہ کیسے فرض کرلیا چونکہ اس کامعاہدے میںذکر نہیں لہٰذا حضرت عمرؓ مسجداقصیٰ پریہودیوں کے حق تولیت کو مانتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت یہ بات کسی کے ذہن میں نہ تھی کہ یہودی اسی جگہ پر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ جیساکہ پیچھے اس نکتہ پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں۔

6. سیکورٹی اور اسلامی ریاست کے تحفظ اور رازداری کی وجہ سے مکہ و مدینہ کا بیت المقدس سے موازنہ نہیں کیاجاسکتا۔ حضرت عمرؓ جزیرۃ العرب کو غیر مسلموں سے پاک رکھنا چاہتے تھے۔ چونکہ بیت المقدس اس سے باہر تھا، اس لئے سیکورٹی کے اس اُصول کو وہاں نافذ نہیں کیا۔ معلوم نہیں اس مسئلہ کا حق تولیت سے کیا تعلق ہے جو مصنف اس کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ؟

7. مصنف کا دعویٰ اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ فقہا نے اس اہم معاملے سے چونکہ تعرض نہیں کیا لہٰذا 'عدمِ تعرض ہی اس تصور کی نفی کے لئے کافی ہے۔ ہم پہلے ہی عرض کرچکے ہیں کسی چیز کے بارے میں عدم تعرض یا سکوت کسی دوسری شے کے وجود و ثبوت کو مستلزم نہیں ہے۔ فرض کیجئے اگر 'عدمِ تعرض' کے فلسفہ کو قابل اعتنا ہی سمجھ لیا جائے تو کسی چیز کے متعلق عدمِ تعرض سے جہاں ایک چیز ثابت ہوسکتی وہاں دوسری بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

مصنف نے عدمِ تعرض سے یہودیوں کے حق تولیت کی تنسیخ کی نفی ثابت کرنی چاہی ہے ہم کہتے ہیں کہ بعض اوقات ایک مسلمہ اور ثابت شدہ، غیر متنازع بات کے متعلق بھی عدمِ تعرض سے کام لیاجاتا ہے۔ کسی چیز سے تعرض عام طور پر تب کیاجاتا ہے جب اس پر آرا مختلف پائی جائیں۔ چونکہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کا مسئلہ فقہا کے نزدیک متنازعہ نہ تھا، اس لئے ان کے ہاں اس کے عدمِ تعرض کا قرینہ ملتا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت 'نہایت اہم' نہیں تھا جتنا کہ یہودی لٹریچر پر دما غ سوزی کرنے کے بعد ہمارے ممدوح محقق کو اب محسوس ہوتا ہے۔

مصنف نے یہاں بہت طویل فقہی موشگافیاں بھی فرمائی ہیں۔ ان دلائل میں غامدی صاحب کا مخصوص 'فلسفہ اتمامِ حجت' بھی جلوہ فرما ہے۔ مصنف کو فقہ اسلامی کے وسیع ذخیرے میں یہودیوں کے حق تولیت کی تائید میں جب کچھ نہ ملا تو انہوں نے اہل کتاب کے مسجد میںدخول وعدم دخول اور اعتقادی نجاست کی بحث کھڑی کردی جس کا مسئلہ مذکور سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔

مصنف سورۃ البقرۃ کی اس آیت ﴿إِنَّمَا المُشرِ‌كونَ نَجَسٌ فَلا يَقرَ‌بُوا المَسجِدَ الحَر‌امَ بَعدَ عامِهِم هـٰذا...٢٨﴾... سورة التوبة" کے متعلق بلا ضرورت مختلف فقہی مکاتب فکر کی آرا پیش کرکے غیر منطقی انداز میں یہودیوں کے حق تولیت کی منسوخی کی نفی کااعلان کردیتے ہیں۔

مساجد میں مشرکوں کے داخلہ کی علت، وقت اور محل کے لحاظ سے کیاہے؟ امام شافعی اس پابندی کو علت اور وقت کے لحاظ سے تو عام مانتے ہیں لیکن محل کے لحاظ سے خاص۔اعتقادی نجاست کی علت چونکہ دوسرے غیر مسلموں میں بھی پائی جاتی ہے، اس لئے کوئی بھی غیرمسلم چاہے وہ مشرک ہو یا اہل کتاب، مسجد ِحرام میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اما م مالک اور امام احمد کی رائے میں یہ حکم علت، وقت اور محل، ہر لحاظ سے عام ہے یعنی ان کے نزدیک تمام غیر مسلموں کا داخلہ مسجد ِحرام سمیت تمام مساجد میں ہمیشہ کے لئے ممنوع ہے۔ احناف کے نزدیک مسجد ِحرام میں داخلے کی یہ پابندی نہ تمام غیر مسلموں کے لئے ہے اور نہ ہر زمانے کے لئے۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ احناف کے نزدیک اس حکم کی علت مفرد نہیں، بلکہ مرکب ہے۔ احناف تمام مساجد میںغیر مسلموں کے دخول کے جواز کے قائل ہیں۔ مصنف کے علمی مباحث کا ملخص یہی ہے۔ مصنف احناف کی رائے سے استشہاد کرتے ہوئے نتیجہ نکالتے ہیں کہ

''مسجد اقصیٰ پر مسلمان نہ بلا شرکت ِغیرے تصرف کااستحقاق رکھتے ہیں اورنہ یکطرفہ طور پراس پر اسلامی شریعت کے احکام نافذ کرنے کے مجاز ہیں۔''

قارئین کرام! یہاں 'ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ' والی مثال صادق آتی ہے۔ مسجد میں داخلے کی اجازت سے موصوف یہودیوں کے حق تولیت کو ثابت کرنے کی سعی فرماتے ہیں۔ ہم ان سے سوال کرتے ہیںکہ اگر اعتقادی نجاست غیر مسلموں کے مساجد کے معاملے میںحائل نہیں ہے اور اس بنا پر انہیں مسجد اقصیٰ کی تولیت کی حق بھی مل جاتا ہے تو پھرمسجد اقصیٰ تک ہی کیوں موقوف رکھا جائے، باقی تمام مساجد میں بھی جہاں انہیں داخلہ کا جواز ملتا ہے، وہ حق تولیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ حیرت ہے ان اشراقیوں پر جن کے تمام دین کا انحصار ان کی عقل پرہے۔ کہاں مسجد میں غیرمسلموں کے دخول اور عدمِ دخول کا معاملہ اور کہاں حق تولیت کی اُصولی بحث۔ مصنف نے جس تنکے کے سہارے اپنے استدلال کی عمارت اٹھائی ہے، وہ یہ ہے کہ بعض احناف رسول اللہ کے دور میں مشرکین عرب کی مسجد حرام میں داخلہ کی ممانعت کی وجہ ان کو اُمورِ تصرف و تولیت سے بے دخل کردینا سمجھتے تھے۔ یقینا یہ ایک وجہ بھی ہے، مگر مشرکوں کو داخلہ کی اجازت نہ دینے کی اور بھی تو کئی وجوہات ہیں۔ پھر مصنف خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان احناف کی رائے جمہور فقہا کی رائے کے برعکس ہے۔ (اشراق: اگست ۲۰۰۳ء ، ۴۷)

مسلمانوں کے حق تولیت کی تائید میں دلائل

راقم الحروف کے نزدیک مسجداقصیٰ پر مسلمانوں کے حق تولیت کے حق میں سب سے اہم شرعی دلیل سورۃ توبہ اور سورۃ الانفال کی وہ آیات ہیں جن کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔ سورۃ انفال میں مشرکین مکہ کے متعلق فرمایا کہ ''وہ اس (مسجد حرام) پر تولیت کا حق بھی نہیں رکھتے، اس کی تولیت کا حق تو صرف پرہیزگاروں کا ہے۔'' (آیت:۳۴)

پھر سورۃ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ

''مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں، درآں حالے کہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے اور جہنم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ اللہ کی مسجدوں کے آبادکار (مجاور و خادم) تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر کو مانیں اور نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں، انہی سے یہ توقع ہے کہ وہ سیدھی راہ چلیں گے۔'' (آیات :۱۷، ۱۸)

مسلمانوں کے حق تولیت کے متعلق یہ بالکل واضح آیات ہیں۔ ان آیات میں جو خصوصیات و انجام مشرکوں کا بتایا گیا ہے، اس کا اطلاق اہل کتاب یہود پر بھی ہوتا ہے، کیونکہ یہودی مشرکین کی طرح اپنے کفر کی شہادت دے رہے تھے، وہ اگرچہ اللہ کومانتے ہیں اور بعض الہامی کتب پر یقین رکھتے ہیں مگر اسلام نہ لانے کی وجہ سے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے اور ہرمسلمان جانتا ہے کہ مشرکوں کی طرح ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور یہ بات تو تسلیم شدہ کہ وہ سیدھی راہ پر نہیں ہیں۔ ان مشترک باتوں کی وجہ سے مسجد حرام اور مشرکوں کے معاملے کا اطلاق یہود اور مسجد ِاقصیٰ پر ہوتا ہے۔ یہودیوں کا دعویٰ مسجد اقصیٰ پرنہیں ہے، ہیکل سلیمانی پر ہے، قرآن مجید نے مسجد ِاقصیٰ کی بات کی ہے، ہیکل کا ذکر نہیں کیا۔ مصنف کی یہ دلیل درست نہیں ہے کہ تولیت کے متعلق مشرکوں اور اہل کتاب کے درمیان فرق ملحوظ رکھا جاناچاہئے۔ ہم ان آیات کو ایک طرح سے مسلمانوں کے حق تولیت کے متعلق نص سمجھتے ہیں۔ بالفرض ان آیات میں مسجد اقصیٰ کا صریح ذکر نہ ہونے کی وجہ سے اگر بعض حضرات اس کے غیر منصوص ہونے پر اصرار کریں، تب بھی مندرجہ بالا آیات ایسے غیر منصوص مسئلہ کے متعلق بنیادی اُصول فراہم کرتی ہیں۔ قرآنِ مجید کے متعدد اُصولوں کی روشنی میں جب سینکڑوں غیرمنصوص مسائل کا حکم لگایاجاسکتا ہے، تو ان واضح تراُصولی آیات کی روشنی میںمسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کے حق تولیت کو تسلیم کرنے میں آخر کون سا امر مانع ہوسکتا ہے؟

مندرجہ بالاآیات کے علاوہ علمائے اسلام نے قرآنِ مجید میں پیش کردہ واقعات مثلاً واقعہ معراج، تحویل قبلہ وغیرہ سے بھی مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کا حق تولیت اخذ کیاہے ۔

چنانچہ سید سلیمان ندوی' سیرت النبیؐ 'میں واقعہ معراج کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

''سب سے پہلے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس سورۃ کے جلی عنوانات کیا ہیں: (1) یہ اعلان کہ آنحضرت نبی القبلتین (یعنی کعبہ اور بیت المقدس دونوں کے پیغمبر) ہیں۔ اور

(2) یہود جو اب تک بیت المقدس کے اصلی وارث اور اس کے نگہبان و کلید بردار بنائے گئے، ان کی تولیت اور نگہبان کی مدت حسب ِوعدہ ٔ الٰہی ختم کی جاتی ہے اور آلِ اسمعٰیل کو ہمیشہ کے لئے اس کی خدمت گزاری سپرد کی جاتی ہے... آپ کودونوں قبلوں کی تولیت تفویض ہوئی اور نبی القبلتین کا منصب عطا ہوا۔ یہی وہ نکتہ تھاجس کے سبب آنحضرت کو کعبہ اور بیت المقدس، دونوں طرف رخ کرنے کاحکم دیا گیا اور اس لئے معراج میں آپ کو مسجد حرام (کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک لے جایا گیا اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیا کی صف میں آپ کو امامت پر مامور کیا گیا تاکہ آج اس مقدس دربار میں اس کا اعلان عام ہوجائے کہ دونوں قبلوں کی تولیت سرکارِ محمدیؐ کو عطا ہوئی ہے۔'' (سیرت النبیؐ:۳؍۲۵۲،۲۵۳)

پھر آپ تحویل قبلہ کو یہود کے حق تولیت کی معزولی کا حکم نامہ قرا ر دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

''بیت المقدس اسلام کا دوسرا قبلہ ہے اور اس کی تولیت اُمت ِمحمدیہ کا حق تھا۔ آنحضرت  نے صحابہ کو اس تولیت کی بشارت دی تھی اور فرما دیا تھا کہ میری موت کے بعد یہ واقعہ پیش آئے گا۔'' (سیرت النبیؐ :۳؍۳۸۵ )

اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ فرماتے ہیں:

''واقعہ معراج کی طرف اشارہ جس میں حقیقت ... کہ اب مسجدحرام اور مسجد اقصیٰ دونوں گھروں کی امانت خائنوں اور بدعہدوں سے چھین کر نبی اُمی  کے حوالہ کی گئی۔ اب یہی ان مقدس گھروں اور ان کے انوار و برکات کے وارث اور محافظ و امین ہوں گے اور ان کے قابضین... مشرکین قریش و یہود... عنقریب ان گھروں کی تولیت سے بے دخل کردیئے جائیں گے۔'' (تدبر قرآن:۳؍۷۱۴)

یادش بخیر مولانا اصلاحی صاحب اشراقیوں کے امامِ ثانی مانے جاتے ہیں۔ امامِ ثالث، اپنی تحریروں میں انہیں 'الاستاذ' کا درجہ دیتے ہیں۔ مگر اشراق کے مضمون نگار واقعہ معراج کی روشنی میں حق تولیت کے متعلق مولانااصلاحی صاحب کی 'تاویل بشارت' کوتسلیم کرتے ہیں نہ سید سلیمان ندوی صاحب کی مؤثر وضاحت ان کے نزدیک قابل اعتنا ہے۔

ان اقتباسات کو درج کرنے کے بعد چند نکتہ آرائیاں کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

''ان دلائل سے واضح ہے کہ ہمارے اہل علم کی ایجاد کردہ واقعہ اسراء کی یہ تازہ تعبیر علمی لحاظ سے بالکل بے بنیاد ہے۔''

اس ضمن میں مسلمان علما چند دیگر دلائل بھی دیتے ہیںمثلاً 'فتح بیت المقدس کی بشارت' اور نصاریٰ کی کتابوں میں پیش گوئیاں جس کی رو سے نصاریٰ بھی بیت المقدس کو اسلام کا حق سمجھے ہوئے تھے (بقول مولانا قاری محمد طیب، مہتمم دارالعلوم دیوبند) مگر مضمون کی طوالت کے خوف سے ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔

قرآن و سنت کے یہی وہ حوالہ جات ہیںجس کو بنیاد بناتے ہوئے ملت ِاسلامیہ نے مسجد اقصیٰ کی تولیت کے متعلق اپنا موقف قائم کیا ہے۔ اگر قلب و نظر میں اسلامی حمیت کا چراغ روشن ہو، تو یہ دلائل انسان میں اس قدر اُجالا کردیں کہ وہ تشکیک اور تذبذب کی وادیوں میں کبھی بھٹکتا نہ پھرے ۔

ارضِ فلسطین پر یہود کا حق؟

اشراق کے اکتوبر ۲۰۰۳ء کے شمارے میں اسی مصنف کے قلم سے ایک اور مضمون 'ارضِ فلسطین پریہود کا حق' کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ پاکستان جیسی نظریاتی ریاست میں اس طرح کے مضامین (اور وہ بھی ایک مذہبی رسالہ میں) کی اشاعت جسارت آمیز ہے، اس مضمون میں بھی مصنف نے اُمت مسلمہ کے موقف کو ناانصافی پر مبنی اور غیر اخلاقی رویہ اختیار کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ مصنف سوال کرتے ہیں :

''صحف ِآسمانی ارضِ فلسطین کو خدا کی طرف سے یہود کوعطا کردہ میراث قرار دیتے ہیں، جبکہ ہمارے اہل علم ان کو اس سرزمین میں پردیسی اور اجنبی کے لئے اور اس میں ان کے قیام کو صدیوں اور سالوں کے پیمانوں سے ناپ کر اس حق کو خرافات قرار دیتے ہیں۔'' (ص۵۹)

نجانے وہ کن صحف ِآسمانی کی بات کرتے ہیں۔ اگر اس سے ان کی مراد وہ صحائف ہیں جو یہودیوں کی ملکیت ہیں تو قرآنِ مجید ان کو محرف قرار دے چکا ہے۔ اگر بالفرض وہ محرف نہ بھی ہوں تب بھی قرآنِ مجید کے آنے کے بعد ان کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔یہ حیرت آمیز سوال کرنے سے پیشتر انہیں غوروفکر کرنا چاہئے تھا کہ آخر جس خدا نے یہود کو وہ میراث عطا کی تھی، اس نے انہیں وہاں سے ذلت ونکبت سے دوچار کرکے نکالا کیوں تھا۔ یہود کا یوں ذلیل و خوار ہوکر نکلنا ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ میراث عارضی تھی اور اس پر ہمیشہ کے لئے 'خدا کی عطا کردہ' کا ٹھپہ نہیں لگا ہوا تھا۔ جب تاریخی اعتبار سے یہ ثابت شدہ ہے کہ یہودی فلسطین پر ۷۰ سال سے زیادہ کبھی مسلسل حکمران نہیں رہے۔ فلسطین میں عربوں کا وجود اسرائیلیوں سے ۲۶۰۰ سال مقدم ہے۔ عرب دنیا کے نامور سکالر علامہ یوسف قرضاوی کا یہ بیان تسلیم کرنے میں آخر کون سی علمی رکاوٹ حائل ہے :

''اگر ان تمام سالوں کو جمع کیا جائے جو یہودیوں نے حملے کرتے اور تباہی پھیلاتے ہوئے فلسطین میں گزارے تو اتنی مدت بھی نہیں بنے گی جتنی انگریز نے ہندوستان میں یا ولندیزیوں نے انڈونیشیا میں گزاری۔ اگر اتنی مدت گزارنے پر کسی کو کسی سرزمین پر تاریخی حق حاصل ہوجاتا ہے تو انگریزوں اور ولندیزیوں کو بھی اس قسم کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اور اگر غربت کی حالت میں ایک طویل عرصہ کسی علاقہ میںگزارنے سے اس زمین پر ملکیت کا حق ثابت ہوتا ہے تو پھر یہودیوں کو چاہئے کہ وہ فلسطین کی بجائے، جس میں ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد نے تقریبا ً ۲۰۰ سال گزارے اور جہاں وہ دو افراد آئے تھے، لیکن ۷۰؍ افراد نکل کرگئے، مصر کی ملکیت کا مطالبہ کریں جس میں انہوں نے ۴۳۰ سال گزارے۔ یہودیوں کا فلسطین پر تاریخی حق کا دعویٰ بالکل لغو ہے۔ صحیفوں کی تصریح کے مطابق وہ یہاں محض اجنبیوں کی طرح رہے تو کیا کسی اجنبی یا راہ گیر کو یہ حق ہے کہ وہ اس زمین پر جس نے اس کو ذرا پناہ دے دی یا اس درخت پر جس نے اس کو تھوڑی دیر سایہ فراہم کردیا، اسی وجہ سے ملکیت کا حق جتا دے کہ اس نے گھڑی کی گھڑی وہاں سستا لیا ہے۔'' ( ہفت روزہ' الدعوۃ' اپریل ۲۰۰۲ء )

 اشراقی مضمون نگار نے ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کے ذکر میں فری میسنری تحریک کاذکر بالکل گول کردیا ہے، ہیکل سلیمانی کا ذکر فری میسنری کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاسکتا۔ بشیراحمد اپنی کتاب 'فری میسنری؛ اسلام دشمن خفیہ تنظیم' میں اس تحریک کے بارے میں لکھتے ہیں:

''ان کے نزدیک دنیا کی عظیم اور قابل تقدیس عبادت گاہ ہیکل سلیمانی یہودی شان و شوکت کی علامت تھا۔ ان کے خیال میں اب اس کی جگہ مسجد اقصیٰ تعمیر ہوگئی ہے جس کو مسمار کرکے دوبارہ ہیکل کا قیام ضروری ہے۔ اس ہیکل کی تعمیر کے نتیجے میں تمام دنیا کے یہودی اپنے مرکز پرجمع ہوسکیں گے اور خداوند یہواہ کی تعریف کے گیت گاسکیں گے۔'' (ص :۱۷)

فری میسنری کی تعلیمات کا ماخذ یہودیوں کے پراسرار باطنی علوم (قبالہ) اور قدیم دیومالائی قصے کہانیاں ہیں۔ قدیم مصری، یونانی، شامی اور بابلی دیومالائی قصوں کو فری میسنری رسومات کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ فری میسن ان دیومالائی داستانوں کے ضمن میں ہی ہیکل سلیمانی کے معمارِ اعظم حیرام ابیف کے مرکر جی اُٹھنے کا واقعہ ذکر کرتے ہیں۔ ہیکل سلیمانی کی تباہی اور اس کی دوبارہ تعمیر فری میسنری علوم کا اہم باب ہے۔

فری میسنری لاجوں کو چلانے والے مختلف عہدیداروں کے درجات کو دیکھا جائے تو وہاں بھی ہیکل سیلمانی کا تعلق نمایاں نظر آتا ہے۔ لاج میں انجام دی جانے والی رسومات بھی ہیکل سے متعلق ہوتی ہیں۔ فری میسنری لاج کی عمارت ہیکل سلیمانی کا عکس اور نمائندہ ہوتی ہے، اسلئے اس کا منہ مشرق کی طرف ہوتا ہے کیونکہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کا منہ مشرق کی طرف تھا۔

کوئی بھی آزادانہ تحقیق کرنے والا شخص جو فری میسنری تحریک اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کے باہمی تعلق کو جانتا ہے، اس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ مسجد ِاقصیٰ پر یہودیوں کی تولیت کے حق کو تسلیم کرے۔فری میسنری چونکہ کاریگر اور مستری قسم کے لوگ تھے، اس لئے انہوں نے ہیکل سلیمانی کے گرد اپنے خرافات کا تانا بانا بنا، انہوں نے اپنے مذہبی جنون کا اظہار بھی ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور تعمیر نو کے قصوں کے بیان کرنے میں کیا۔ انہوں نے بہت جلد ہی دیگر یہودیوں میں اپنی خرافات کے متعلق جذباتی وابستگی پیدا کرلی، ورنہ یہود میں ہیکل سلیمانی کی مسجد ِاقصیٰ کو گرا کر تعمیر کرنے کی تحریک قدیم اَدوار میں نہیں تھی۔

فری میسن ایک زبردست تحریک تھی جس نے یورپ کے شاہی گھرانوں، دانش وروں اور اہل سیاست و صحافت، سب کو متاثر کیا۔ برطانیہ کے شاہی خاندان اور امریکہ کے صدور کا اس تحریک سے گہرا تعلق رہا ہے۔ ہندوستان میں جتنے معروف وائسرائے آئے، وہ بھی اس تحریک سے وابستہ تھے۔ صہیونی تحریک کا بانی تھیوڈر ہرزل اس تحریک کا پرجوش رکن رہا تھا۔

خلاصۂ بحث :ایسے وقت میں جب فلسطین کے مسلمان اپنی سیاسی جدوجہد کے نازک دور سے گزر رہے ہوں اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں، مغربی کنارے پر یہودی اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لئے پختہ فصیل تعمیر کررہے ہوں، جنین، رملہ اور غزہ میں اسرائیلی ٹینک مسلمانوں کی آبادیوں کو تہس نہس کررہے ہوں، جناب یاسرعرفات کا ہیڈکوارٹر گرایا جاچکا ہو، ان کو عملاً بے دست وپا کرکے فلسطینی قیادت سے محروم کردیا گیا ہو، حماس کے لیڈروں کو چن چن کر شہید کیا جارہا ہو، بیت المقدس کی بے حرمتی کی جارہی ہو، آئے دن فلسطینی مسلمان، عورتوں اور بچوں کی چیختی چلاتی تصویروں سے اخبارات بھرے پڑے ہوں، اسرائیلی طیارے شام اور لبنان پر بمباری کررہے ہوں؛ کیا یہی مناسب موقع ہے جس میں ایک مذہبی گروہ کاآرگن تواتر سے اسرائیلی موقف کا پرچار کرتے ہوئے اُمت ِمسلمہ کے موقف کو باطل ثابت کرنے کی مذموم مہم برپاکرے اور 'ارضِ فلسطین پر یہود کا حق' ثابت کرنے کے لئے قرآن وسنت اور تاریخی دستاویز کی من چاہی تاویلات و تعبیرات سے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلے۔ آخر آزادانہ تحقیق کے نام پر حقائق کو مسخ کرنے اور مسلمانوں کی دل آزاری کا یہ شرمناک کھیل کب تک کھیلا جاسکتا ہے؟ علمائے حق محض مروّت اور رواداری کے جذبات کے تحت ان دل آزار سرگرمیوں کو کب تک نظر انداز کرتے رہیں گے؟

ان سب سوالوں کے جوابات ہمیں اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہئیں۔ یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لئے برپا کردہ مکروہ مہم کی سرکوبی اور محاکمہ ہر اس مسلمان کا فرض ہے جس کا دل ملت اسلامیہ کے غم میں تڑپتا ہے!!
مکمل تحریر >>