Pages

Friday, December 13, 2013

صیہونیت سرزمین مقدس میں مغرب کا کاشت کردہ پودا

ڈاکٹر محسن محمد صالح
اردو استفادہ محمد زکریا خان
صیہونیت کا آغاز: صہیونی تحریک جس نے اپنے لیے فلسطین میں قومی وطن کے وجود پر زور دیا۔ اس تحریک کے برپا ہونے میں متعدد اسباب کار فرما رہے ہیں۔ اس تحریک کا آغاز یورپ کے عیسائی ماحول میں ہوا خصوصاً جن دنوں پر وٹسنٹ عیسائیوں کی تحریک زوروں پر تھی۔ یہ سولہوی صدی کا زمانہ تھا۔ اسی طرح یورپ میں قوم پر ستانہ تحریکیں اور وطن پر ستانہ تحریکوں نے صہیونی تحریک کے پختہ ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے خاص طور پر انیسوی صدی کی قوم پر ستانہ اور وطن پر ستانہ تحریکیں ۔
مشرقی یورپ میں صیہونیت کے فروغ میں خاص طور پراس قضیے نے اہم کردار ادا کیا ہے جسے یہودیوں کی سیاسی اصطلاح میں’مسئلہ یہود‘(Jewish question)کہا جاتا ہے۔ اسی طرح روس میں یہودیوں کی نسل کشی نے بھی صہیونی تحریک کے برپا ہونے میں ا ہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں یہودیوں کا بڑھتا ہوا اثر ونفوذ اور دوسری طرف یہوودیوں میں ’تحریک تنویر ‘(Reform Judaism ؛یہودی عقائد میں ایسی لچک پیدا کرنا جو یورپ کے لیے قابل قبول ہو یعنی ایمانیات کو سماجی مسئلے سے زیادہ اہمیت نہ دینا) کی نا کامی بھی صیہونیت کے فروغ میں مدد گار رہی ہے۔
مغربی استعمار کی سازش: مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ متعدد اغراض کے لئے عالم اسلام کے بیچ میں یہودی ریاست کا قیام عمل میں لانا چاہتے تھے۔ اس چھوٹی مگر خطر ناک ریاست سے ایک طرف عالم اسلام کے دوبازو جدا ہو گئے ایک طرف افریقہ کے مسلم ممالک تھے تو دوسری طرف ایشیاءکے مسلم ممالک اور ان کے بیچوں بیچ صہیونی ریاست جو انہیں کاٹنے کیلئے بنائی گئی تھی۔ صہیونی ریاست مسلم خطوں کی وحدت میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ اس سازش کی وجہ سے عالم اسلام میں متحدہ قوت کے ابھرنے اور ترقی کے امکانات کے سامنے ایک دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔ مسلم ممالک صرف کنزیو مر( صارفین) ہیں اور صہیونی ریاست مغربی مال کی مشرق میں فروخت کی گزرگاہ۔صہیونی ریاست کے ناسور کی وجہ سے عظیم اسلامی وحدت جنم نہیں لے پائی ہے جو اس ریاست کی غیر موجودگی میں قدرتی طور پر عثمانی خلافت کے سقوط کے خلاءکو پر کرسکتی تھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ عظیم تر اسلامی وحدت میں رکاوٹ عالم اسلام کے بیچ میں صہیونی ریاست کا قائم رہنا ہے۔ یہ جغرافیائی اور نظریاتی وحدت جس میں رکاوٹ صہیونی وجود ہے اُس وقت تک اپنے طبعی انضمام کو نہیں پہنچ سکتی جب تک صہیونی ریاست کو مٹا نہیں دیا جاتا ۔
صیہونیت کے مقاصد: صہیونی تحریک کی بنیاد اگست 1897ءمیں سوئٹزر لینڈ میں تھیوڈور ہرتشل کے ہاتھوں رکھی گئی تھی۔ تحریک کے بانی نے روز اول سے اس تحریک کو استعماری مقاصد کےلئے بنا یا تھا جس کا مقصد مغربی ممالک کے اہداف پورے کرنا تھا۔ تمام تر چالاکی کے باوجود یہ تحریک پہلی جنگ عظیم تک کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کرپائی تھی۔ صہیونی تحریک ایک نسل پر ستانہ تحریک ہے جس کی رگوں میں مذہبی قومی عناصر پائے گئے ہیں۔ اس تحریک کے پروان پانے کا انحصار اس اصول پر رکھا گیا ہے کہ فلسطین کے اصل باسیوں کے کتنے حقوق چھین کر نو واردوں کو دیے جا سکتے ہیں۔ ایک دفعہ صہیونی تحریک کی رکنیت حاصل
کرنے کے بعد مذہبی یہودی اور سیکولر یہودی میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ جب تک کوئی یہودی صہیونی تحریک کا رکن ہے وہ انہی مقاصد کی تکمیل میں اپنی صلاحیتیں کھپائے گا جس کیلئے صہیونی تحریک برپاکی گئی ہے ۔
فلسطین پر برطانوی انتداب: برطانیہ نے 1917ءمیں اعلان بالفور کے اعلامیے کے ساتھ فلسطین میں صہیونی قومی ریاست کی بنیاد رکھی۔ ستمبر 1918ءمیں برطانیہ نے خطے پر قبضہ مکمل کرتے ہوئے فلسطینی اراضی کا ایک حصہ صیہونیوں کو دے دیا۔ اس سے پہلے برطانیہ عرب شیوخ سے معاہدہ کرکے خطے میں داخل ہوا تھا کہ وہ عرب ریاستوں کو مکمل آزادی اور خود مختاری دے گا۔ یہ معاہدہ برطانیہ نے عربوں کے متحدہ نمائندے الشریف حسین سے کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے ایک بڑے حصے پر قبضے کے بعد برطانیہ نے کسی معاہدے کا پاس خیال نہ کیا اور عربوں کو کبھی آزادی اور خود مختاری حاصل نہ ہوسکی۔ معاہدہ سائکس پیکو کے ذریعے مشرق وسطیٰ بشمول عراق اور وسیع ترشام فرانس اور برطانیہ کے اثرو نفوذ کے درمیان چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم کردیا گیا۔ 1916ءمیں سائکس پیکو (Sykes Picot Agreement) معاہدے کے تحت فلسطین کو بین الاقوامی خطہ قرار دیا گیا۔ پھر اس کے بعد دوسرے معاہدے سان ریموکانفرنس؛San Remo ( اپریل 1920) کے تحت فلسطین پر بین الاقوامی خطے کی بجائے برطانیہ کے انتداب کے حق کو تسلیم کرلیا گیا جسے مئی 1922ءمیں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کرلیا ۔
صیہونیت کے لیے برطانیہ کی خدمات: برطانیہ نے فلسطین پر اپنے انتداب کے دوران میں( 1918ء۔ 1948ء) یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ یہودی آباد کاری میں اضافہ ان اعدادو شمار سے لگا یا جاسکتا ہے کہ 1918ءمیں فلسطین میں صرف( 55000)پچپن ہزار یہودی تھے اور 1948ءمیں نقل پزیر ہو نے والے یہودیوں نے یہودی آبادی کو( 646000)چھ لاکھ چھیالیس ہزارتک بڑھا دیا۔ یعنی پہلے یہودی کل آبادی کا آٹھ فیصد تھے اور اس کے بعد ان کی آبادی کا تناسب تھا 31.7فیصدتھا۔ اسی طرح برطانیہ نے فلسطینی اراضی کی یہودیوں کو فروخت کے کئی طریقے نکال لیے۔ برطانیہ کے انتداب سے پہلے یہودی کل اراضی کے دو فیصد کے مالک تھے اور کچھ ہی عرصہ کے بعد یہودی 6.7فیصد اراضی کے مالک ہو گئے۔ یہ اراضی یا تو سرکار کی طرف سے الاٹ ہوئی یا پھر فلسطین میں موجود غیر فلسطینیو ں نے یہ اراضی فروخت کی تھی۔ زمین کی خریداری پر یہودیوں کی طرف سے پرکشش قیمت پر بھی غریب فلسطینی اپنی اراضی نہ بیچتے تھے۔ تیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود فلسطین کے اصل باشندے 93.3 فیصد اراضی کے مالک تھے اورفلسطینی آبادی کا تناسب 68.3 فیصد تھا ۔
برطانیہ نے نوواردوں کےلئے متعدد اقتصادی ‘ سیاسی اور تعلیمی اور عسکری پراجیکٹ بنائے ۔ 1948ءتک برطانیہ کی طرف سے 292یہودی خیمہ بستیاں تعمیر پاچکی تھیں۔صیہونی ستر ہزار فوج کیل کانٹے سے لیس تھی اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے آزاد ملک ہونے کا اعلان کردیا ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔