جفا کے گیسوئے پر پیچ و خم بل کھائے جاتے ہیں۔
نئے جال آئے دن دل کے لئے پھیلائے جاتے ہیں
نہالان چمن بے آب ہیں کمھلائے جاتے ہیں۔
کڑی ہے دھوپ پھول اسلام کے مرجھائے جاتے ہیں
وفاداروں کو آئین جفا دکھلائے جاتے ہیں۔
اسیران محبت قید میں بھیجوائے جاتے ہیں
زمینوں پر ہماری غیر قبضہ پائے جاتے ہیں ۔
وہ بیٹھے ہیں ہم اپنی بزم سے اٹھوائے جاتے ہیں
وطن کی دوستی اہل وطن پر رنگ لائی ہے،
فلسطیں کے مجاہد خون میں نہلائے جاتے ہیں
زمانے میں سیاہی جن کی تاریکی سے پھیلی ہے،
وہی گیسو جفا کے دوش پر بکھرائے جاتے ہیں
نظر ہٹتی نہیں ہے مقتل بیت المقدس سے،
نشان کاروان رفتہ ابتک پائے جاتے ہیں
حیا والو رگ اسلام کیو ں آئے نہ جنبش میں
، کبھی جنکو نکالا تھا وہی پلٹائے جاتے ہیں
طواف حائط بیت المقدس تھا کبھی اور اب
قفس کی چار دیواری سے سر ٹکرائے جاتے ہیں
دکھایا جا رہا ہے ہمکو باغ سبز وعدوں کا
جفا والے جفائیں کر کے دل بہلائے جاتے ہیں
چھپا جاتا ہے مہر اسلام کا راتوں میں مغرب کی
گھٹا کی طرح سے بیداد والے چھائے جاتے ہیں
دہن پر مہر خاموشی ہے دل کروٹ بدلتا ہے،
زبانیں کٹتی ہیں گر حرف شکوہ لائے جاتے ہیں
علامات جنوں کو سلسلہ بھی ختم ہے اے دل،
کہ اب چاک گریباں تا بہ دامن آئے جاتے ہیں
توانائی کے خنجرپھر رہے ہیں نا توانوں پر
یہ نقشے مغربی تہذیب کے دکھلائے جاتے ہیں
جو الجھے رشتہءجاں سے ہوس کی ہے چمک جن میں
وہ گیسو ناخن بیداد سے سلجھائے جاتے ہیں
خدا رکھے ستم ایجادوں کی اس چارہ سازی کو
کہ دل پر چوٹ بھی دیتے ہیں اور سمجھائے جاتے ہیں
تعلق دل کا اے محبوب پوشیدہ نہیں رہتا یہ کیا ہے
خود بہ خود آنکھوں میں آنسو آئے جاتے ہیں
نئے جال آئے دن دل کے لئے پھیلائے جاتے ہیں
نہالان چمن بے آب ہیں کمھلائے جاتے ہیں۔
کڑی ہے دھوپ پھول اسلام کے مرجھائے جاتے ہیں
وفاداروں کو آئین جفا دکھلائے جاتے ہیں۔
اسیران محبت قید میں بھیجوائے جاتے ہیں
زمینوں پر ہماری غیر قبضہ پائے جاتے ہیں ۔
وہ بیٹھے ہیں ہم اپنی بزم سے اٹھوائے جاتے ہیں
وطن کی دوستی اہل وطن پر رنگ لائی ہے،
فلسطیں کے مجاہد خون میں نہلائے جاتے ہیں
زمانے میں سیاہی جن کی تاریکی سے پھیلی ہے،
وہی گیسو جفا کے دوش پر بکھرائے جاتے ہیں
نظر ہٹتی نہیں ہے مقتل بیت المقدس سے،
نشان کاروان رفتہ ابتک پائے جاتے ہیں
حیا والو رگ اسلام کیو ں آئے نہ جنبش میں
، کبھی جنکو نکالا تھا وہی پلٹائے جاتے ہیں
طواف حائط بیت المقدس تھا کبھی اور اب
قفس کی چار دیواری سے سر ٹکرائے جاتے ہیں
دکھایا جا رہا ہے ہمکو باغ سبز وعدوں کا
جفا والے جفائیں کر کے دل بہلائے جاتے ہیں
چھپا جاتا ہے مہر اسلام کا راتوں میں مغرب کی
گھٹا کی طرح سے بیداد والے چھائے جاتے ہیں
دہن پر مہر خاموشی ہے دل کروٹ بدلتا ہے،
زبانیں کٹتی ہیں گر حرف شکوہ لائے جاتے ہیں
علامات جنوں کو سلسلہ بھی ختم ہے اے دل،
کہ اب چاک گریباں تا بہ دامن آئے جاتے ہیں
توانائی کے خنجرپھر رہے ہیں نا توانوں پر
یہ نقشے مغربی تہذیب کے دکھلائے جاتے ہیں
جو الجھے رشتہءجاں سے ہوس کی ہے چمک جن میں
وہ گیسو ناخن بیداد سے سلجھائے جاتے ہیں
خدا رکھے ستم ایجادوں کی اس چارہ سازی کو
کہ دل پر چوٹ بھی دیتے ہیں اور سمجھائے جاتے ہیں
تعلق دل کا اے محبوب پوشیدہ نہیں رہتا یہ کیا ہے
خود بہ خود آنکھوں میں آنسو آئے جاتے ہیں
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔