حامد کمال الدین hamid@eeqaz.org
فلسطین مسئلہ مغرب اور عالم اسلام کے مابین پائے جانے والے حالیہ تنازعات میں ’ام المسائل‘ کا درجہ رکھتا ہے، ’امنِ عالم‘ کے بہت سے لاینحل عقدوں کی جڑ درحقیقت یہیں پر پائی جاتی ہے، بلکہ عالم اسلام کی کئی اور جنگیں ایک معنیٰ میں اسی جنگ کی پیدا کردہ ہیں؛ ایشیا تا افریقہ مسلمانوں پر آج جو جنگیں مسلط کی جارہی ہیں ان کے پیچھے بڑی حد تک یہی مقصد کارفرما ہے کہ ارضِ مقدس میں یہودی مفادات کو کسی طرح محفوظ بنا دیا جائے…. لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ارضِ فلسطین پر ’یہودی حق‘ کا ڈھکوسلہ ہمارے سامنے واضح ہوجائے۔
فلسطین پر ’یہودی حق‘ کا دعویٰ یا تو ’مذہبی‘ بنیاد پر ہوسکتا ہے اور یا پھر ’قومی و تاریخی‘ بنیاد پر۔ آج ’اقوام متحدہ‘ کے دور میں ’مذہب‘ کو بنیاد بنا کر کسی سرزمین پر دعویٰ کرنااور ہنستے بستے باشندوں کو وہاں سے اٹھا کر چلتا کرنا دنیا کے پڑھے لکھوں کے ہاں کہاں تک ایک ’معقول حرکت‘ کہی جانے کے قابل ہے، محتاجِ بیان نہیں۔ پھر بھی ہم وہ امت ہیں جو کسی مسئلہ کی ’دینی‘ بنیادوں کو، اگر وہ حق ہوں، سب سے پہلے تسلیم کرنے والے ہیں۔ زمین اللہ کی ہے اور وہ جسے چاہے اس کا وارث بنا دے۔ البتہ ہم ہی وہ امت ہیں جو یہود کی مذہبی جعلسازیوں کا پول کھول دینے کیلئے بھی پوری پوری قدرت اور اہلیت اور مستند علمی مصادر اپنے پاس رکھتے ہیں، اور اس پہلو سے بھی ہم ہی دنیا کو وہ حقیقت منکشف کر کے دے سکتے ہیں جسے یہود کی کذب بیانی نے تحریف زدہ کر کے، پچھلی ایک صدی سے، امنِ عالم کو تہس نہس کر دینے کی بنیادبنا رکھا ہے۔ حق یہ ہے ’فلسطینی مسلمان‘ کے ہوتے ہوئے ارضِ قدس پر یہود نہ تو کوئی ’مذہبی‘ حق رکھتے ہیں اور نہ ’قومی و تاریخی‘۔
سیکولر دنیا کی بابت سمجھا جاتا ہے کہ وہ ’قومی و تاریخی‘ حق کو ہی اقوام کے ’دعوائے زمین‘ کی بابت درخور اعتنا سمجھتی ہے، لہٰذا ہم بھی مسئلۂ فلسطین کے قومی وتاریخی پہلو پر ہی پہلے کچھ بات کریں گے، اس کے بعد (آئندہ مضمون میں) یہود کے مذہبی دعویٰ کو روشنی تلے لائیں گے۔
٭٭٭٭٭
دس ہزار سال قبل مسیح میں فلسطین یقینا ایک بستا ہوا ملک تھا، مگر یہ ’ماقبل تاریخ‘ دور اپنی تفصیلات کے معاملہ میں آج نامعلوم ہے۔ دس ہزار سال قبل مسیح کے بعد ادوار کو نطوفی Natufian تہذیب کا دور کہا جاتا ہے مگر ’نطوفیوں‘ کی اصل کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ یہاں اریحا کا تاریخی شہر جو ایک اندازے کے مطابق نو ہزار سال پرانا ہے، اسی تہذیب کے نشانات میں شمار ہوتا ہے۔
کوئی پانچ ہزار سال کے لگ بھگ کی بابت یہ البتہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جزیرۂ عرب سے وقفے وقفے کے ساتھ بہت سے انسانی مجموعے فلسطین کے زرخیز خطوں کی جانب نقل مکانی کر آئے تھے۔ جزیرۂ عرب کے یہ مختلف النسب گروہ، جن میں سامی نسل کے قبائل بھی تھے اور کنعان بن حام کی نسل سے بھی، عمومی طور پر ایک ہی نام سے جانے گئے۔ یا پھر اس پورے دور کو ہی کنعانی دور کہا گیا۔ اس لحاظ سے اس خطہ کے ساتھ عربوں کا تعلق تب سے ہے جب سے تاریخ، انسانی وثائق کا حصہ بننے لگی۔ بائبل کا صحیفہ ’پیدائش‘ جگہ جگہ ارضِ فلسطین کو کنعانیوں کا ملک مانتا ہے، جہاں پر اسحاق اور پھر یعقوب علیہما السلام کو رہنے کیلئے کچھ زمین میسر آئی۔ خود
اسرائیلی، زبان، ثقافت اور رہن سہن کے لحاظ سے ’کنعانیوں‘ کے رنگ میں رنگے گئے۔کنعانیوں نے اس ملک میں 119 شہر قائم کئے، گو یہ واضح ہے کہ کنعانی تہذیب نے بابلی، آرامی، اور فینیقی تہذیب سے بہت کچھ لیا اور اس پر بہت کچھ اضافہ کیا۔
کنعانیوں کے علاوہ یہاں مصریوں نے بے شمار نشانات چھوڑے ہیں۔ بارہ سو سال قبل مسیح یہاں جزیرۂ کریٹ سے فلستی قوم آتی ہے اور غزہ کے جنوبی ساحل کے ساتھ ساتھ بسنے لگتی ہے۔ بعد ازاں دیگر کئی ایک شہروں میں پھیل جاتی ہے۔ کچھ ہی دیر بعد، یہ بھی کنعانی ثقافت کا ہی حصہ بن جاتی ہے۔فلستیوں کے آنے سے یہ خطہ اور بھی ترقی کرتا ہے۔
اسی دوران ہی یہاں ’عبرانیوں‘ کا ایک نہایت چھوٹا خانوادہ آتا ہے۔ بنی اسرائیل کی کل بارہ فیملیاں۔ بلکہ یوسف علیہ السلام کا بیاہ مصر میں جاکر ہوتا ہے۔ تب یہ پورا گھرانہ مصر جا بیٹھتا ہے۔ ’زمین کے مالک‘ جو ہوتے ہیں وہ اس کو چھوڑ کر نہیں جاتے!
انکے ہاں کسی وقت کہا جاتا ہے یہ مصر سے صرف اَسی سال بعد موسیٰ علیہ السلام کی معیت میں فلسطین لوٹ آئے تھے۔ دوسری جانب کہتے ہیں، یہ واپس آئے تو چھ لاکھ تھے بلکہ مرد مرد چھ لاکھ سے اوپر تھے! 80 سال میں ’بارہ گھرانے‘ لاکھوں کو نہیں پہنچتے! یہ صدیوں مصر میں رہے۔ جب تک حقیقتِ اسلام پر قائم رہے تھوڑے ہوتے ہوئے مصر پر حکمران رہے، پھر زیادہ ہوکر غلام ہوئے؛ ان کو یہ بتانے کیلئے کہ ان کا دعویٰ قومی نہیں ہوسکتابلکہ ان کی سب خیر خدا اور اس کے نبیوں کے ساتھ وفاداری اپنا رکھنے میں ہے۔
یہ تمام تر عرصہ فلسطین البتہ فلسطینیوں سے بسا رہتا ہے!
اب واپس آتے ہیں تو نہایت مختصر عرصہ فلسطین کے چند شہروں پر حاکم رہ لینے کے بعد مقامی باشندوں کے ہاتھوں یہ پھر بے گھر کر دیے جاتے ہیں، ان کو بتانے کیلئے کہ مسئلہ ’قومی حق‘ کا ہے اور نہ ’زورِ بازو‘ کا، بلکہ خدائی مشن پورا کرنے کا ہے۔ در بدر پھرتے، تا آنکہ طالوت کے زمانے میں ان کے دن پھرتے ہیں اور خدا کے دو نبیوں داودؑ اور سلیمانؑ کا ساتھ دے کر یہ ایک عرصہ کیلئے پھر آبرومند ہوتے ہیں۔ فلسطین کے اطراف واکناف میں اس قوم کا ڈنکا بجتا ہے تو صرف خدا کے ان دو نبیوں کے زمانے میں، جوکہ لگ بھگ 1000ءتا 850ءقبل مسیح کا زمانہ ہے۔ سلیمان علیہ السلام کے رخصت ہوجانے کے بعد اس کا شیرازہ پھر بکھرنے لگتا ہے۔ ان کی مملکت دو حصوں میں بٹتی ہے۔ یہودہ اور اسرائیل۔ یہ وہ زمانہ ہے جب یہی قوم جو یہاں حق کے قیام کیلئے برپا کی گئی تھی، تاریخ کا بدترین فساد برپا کرتی ہے۔ تا آنکہ چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کا شہنشاہ بخت نصر ان پر تاریخ کی بدترین تباہی لاتا ہے۔ یہ بھاری تعداد میں ذلت کی موت مرتے ہیں اور باقی کے لوگ اسیر ہو کر بابل لے جائے جاتے ہیں، کہ قبطیوں کی بجائے اب بابلیوں کو ’غلاموں‘ کی ضرورت تھی!
فلسطین پھر اپنے باشندوں کے ساتھ آباد رہ جاتا ہے! تاآنکہ 539 ق م میں فارسی شہنشاہ سائرس ان کے لئے پروانۂ آزادی جاری کرتا ہے اور ان کو فلسطین لوٹنے کی اجازت مرحمت فرماتا ہے۔رہا یہ خطہ تو اس پر فارسی شہنشاہت، اور بعد ازاں 330 ق م میں یہاں پر سکندر اعظم کا اقتدار قائم ہوجاتا ہے۔ تا آنکہ 63 ق م میں یہاں رومیوں کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ اس سارا عرصہ البتہ اس کے باشندے وہی رہتے ہیں جو ہمیشہ سے تھے۔ اسرائیلیوں کے نکلنے سے یہ علاقہ کبھی خالی ہوا اور نہ ان کے یہاں سکونت اختیار کر جانے سے کبھی آبادیوں کے گنجان ہوجانے کی شکایت ہوئی!
چڑھتے سورج کے پجاری، یہودیوں سے رومیوں کی جتنی کاسہ لیسی ہوسکتی ہے اتنی کرتے ہیں۔ زکریا اور یحییٰ علیہما السلام ایسے انبیاءکو قتل کرتے ہیں بلکہ اپنے تئیں عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرتے ہیں۔ تا آنکہ ان کا فساد حد سے بڑھ جاتا ہے تو خدا کا کرنا رومی بھی ان پر غضب ناک ہوجاتے ہیں۔ 77 ءمیں رومی بادشاہ ٹیٹس ان پر خدا کے قہر کا کوڑا ثابت ہوتا ہے۔ رومی جی بھر کر
یہودیوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔ تب سے آج تک فلسطین میں یہودی نہیں ملتے۔ دو ہزار سال سے دربدر پھرتے ہیں۔ جبکہ فلسطین مسلسل اپنے باشندوں سے آباد رہتا ہے۔
تا آنکہ تین صدی بعد رومن خود بھی عیسائی ہو جاتے ہیں، جوکہ یہودیوں پر نئی آفت لے آنے کا ایک خوفناک پیش خیمہ بنتا ہے۔ عیسائیوں کے لئے مسیح علیہ السلام نبی نہیں بلکہ خدائی کا مرتبہ رکھتے تھے۔ اتنی بڑی اور بے دید اور طاقتور قوم کے ’خدا‘ کو مارنے والی قوم کیونکر اس کے قہر سے بچی رہ سکتی تھی؟! یہود کیلئے دنیا بھر میں کہیں پر چھپ کر بیٹھنا اب تو بالکل ہی دوبھر ہوگیا تھا۔ ’ارضِ میعاد‘ کو بھلا اب کون یاد رکھتا!؟
پس واضح رہے، ان کی دربدری نبوت محمدی کے دور سے شروع نہیں ہوئی۔ نہ ہی مسلمان اس نام نہاد ’سام دشمنی‘ سے کسی بھی دور کے اندر واقف رہے تھے۔ ہٹلر صرف آج جا کر بدنام ہوا، یورپی اقوام کی جب سے مسیحیت کے ساتھ نسبت ہوئی یہود کیلئے اسی دن سے قیامت کھڑی ہوئی رہی ہے۔ عالم عیسائیت کی یہودیوں پر یہ ’کرم فرمائی‘ بیسویں صدی تک جاری رہی۔ جو فرق اس وقت دیکھنے میں آرہا ہے اس ’چولی دامن‘ کی تاریخ چند عشروں سے زیادہ نہیں۔
غرض دورِ مسیح سے اِن کا پودا یہاں سے اکھاڑا گیا اور اس کو دوبارہ یہاں لگنا پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔
بعض تاریخ دانوں نے حساب لگایا ہے، یہودیوں کا فلسطین میں کلی اور زیادہ تر جزوی اقتدار ملا جلا کر چار سو سال سے زیادہ نہیں بنتا۔ البتہ اب دوہزار سال سے یہ مسلسل زمانے بھر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ آج جا کر ’جمہوریت‘ اور ’آزادی‘ کے اس دور میں یہ برطانیہ کے کندھوں پر سوار ہوکر فلسطین آتے ہیں اور برطانوی حمایت اور بندوق کے زور پر ایک ہنستی بستی، صدیوں سے آباد قوم سے، اپنے ’آباءکی جاگیر‘ کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں! ملک کے باشندوں کو خیمہ بستیوں میں ٹھونس دیتے ہیں اور ایک بڑی تعداد کو جلاوطن ہوجانے پر مجبور کردیتے ہیں! یورپ اور امریکہ ’ارضِ میعاد‘ میں اس یہودی درندگی پر تالیاں پیٹتے ہیں، ان کیلئے اسلحہ اور دولت کی بوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں، اقوام متحدہ کے ایوانوں میں اس ناجائز بچے کو ہر جگہ انگلی سے لگائے پھرتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح عالمی برادری اس سے مانوس ہوجائے اور اس کو ’تسلیم‘ بھی کرلے! فلسطینیوں پر یہ جتنا ظلم ڈھا لے کبھی ٹس سے مس نہ ہوں گے، جس وقت البتہ اِس ’منظورِ نظر‘ کیلئے خطہ میں کوئی مسئلہ بنتا نظر آئے تو ’قیامِ امن‘ کیلئے بھاگے چلے آئیں گے۔
یہ دو ہزار سال تک ملک ملک کی خاک چھانتے رہے۔ جبکہ فلسطین کے باشندوں نے ایک دن کیلئے اپنا ملک نہیں چھوڑا۔ فلسطین میں بسنے والی اقوام ان سے پہلے سے یہاں آباد ہیں اور اس سارا عرصہ یہیں رہتی رہی ہیں۔ بیس صدیاں پیشتر یہودیوں کو یہاں سے نکالا گیا تھا تو اس وقت بھی یہ پاپ ’فلسطینیوں‘ نے نہیں کیا تھا کہ اس کی سزا ان کو خیمہ بستیوں اور بے خانمائیوں کی صورت میں آج جا کر دی جائے۔ بیس صدیاں پہلے یورپ کے رومنوں نے ان کو یہاں سے بھگایا تھا اور اب بیس صدیاں بعد یورپ کے انگریزوں نے ان کو یہاں لا بسایا۔ صدیوں کے یہ طفیلی parasites یوں جا کر انگریز کے طفیل ایک بستے بساتے ملک کے ’وارث‘ ہوئے اور ملک کے اپنے باشندے در بدر! اقوام متحدہ کے انسانی قواعد کی روسے یہ وہاں کے رکھوالے البتہ وہ جو صدیوں سے اس گھر کے مالک رہے وہ اب ’باغی‘ اور ’دہشت گرد‘ اور ’امن کیلئے خطرہ‘!
برطانیہ بہادر جو آئرش باشندوں کو ان کا اپنا گھر اور ان کے اپنے باپ کی جاگیر واپس کرنے پر کبھی تیار نہ ہوا تھا، کس دریادلی کے ساتھ فلسطینیوں کے ملک پر پولینڈ، جرمن، آسٹریا اور بیلجئم کے یہودیوں کا حق تسلیم کررہا تھا! بالفور ڈکلیریشن کی رو سے ملکۂ برطانیہ سرزمین فلسطین پر یہودیوں کے حقِ واپسی کو کس ’احترام اور ہمدردی‘ کی نگاہ سے دیکھتی تھیں! یہی ’ہمدردی‘ کی
نظر عالمی توازنِ طاقت کے ساتھ ہی پھر برطانوی تاج سے امریکی انتظامیہ کو منتقل ہوجاتی ہے۔ ’آباءکی قبریں‘ اگر ایسی ہی کوئی دلیل ہے تو اس سے کہیں واضح حق تو پھر امریکہ پر ریڈ انڈینز کا بنتا ہے، جن کا وہاں سے ایک بڑی سطح پر اور نہایت بے رحمی کے ساتھ اور وہ بھی امریکیوں کے ہاتھوں خاتمہ ہوئے ابھی چند صدیوں سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور جوکہ ہزاروں سال تک اس ملک کے بلا شرکت غیرے مالک رہے تھے۔ کیا امریکی جو فلسطین پر اسرائیل کا ’آبائی حق‘ مانتے ہیں، خود اپنے ملک پر ریڈ انڈینز کا یہ حق بھی تسلیم کریں گے؟! اور کیا اندلس پر عربوں کا یہ حق بھی مان لیں گے، جنہیں یہاں سے نہایت ظلم اور ناانصافی کے ساتھ بے دخل ہوئے ابھی صرف پانچ سوسال ہوئے ہیں؟!
فلسطین مسئلہ مغرب اور عالم اسلام کے مابین پائے جانے والے حالیہ تنازعات میں ’ام المسائل‘ کا درجہ رکھتا ہے، ’امنِ عالم‘ کے بہت سے لاینحل عقدوں کی جڑ درحقیقت یہیں پر پائی جاتی ہے، بلکہ عالم اسلام کی کئی اور جنگیں ایک معنیٰ میں اسی جنگ کی پیدا کردہ ہیں؛ ایشیا تا افریقہ مسلمانوں پر آج جو جنگیں مسلط کی جارہی ہیں ان کے پیچھے بڑی حد تک یہی مقصد کارفرما ہے کہ ارضِ مقدس میں یہودی مفادات کو کسی طرح محفوظ بنا دیا جائے…. لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ارضِ فلسطین پر ’یہودی حق‘ کا ڈھکوسلہ ہمارے سامنے واضح ہوجائے۔
فلسطین پر ’یہودی حق‘ کا دعویٰ یا تو ’مذہبی‘ بنیاد پر ہوسکتا ہے اور یا پھر ’قومی و تاریخی‘ بنیاد پر۔ آج ’اقوام متحدہ‘ کے دور میں ’مذہب‘ کو بنیاد بنا کر کسی سرزمین پر دعویٰ کرنااور ہنستے بستے باشندوں کو وہاں سے اٹھا کر چلتا کرنا دنیا کے پڑھے لکھوں کے ہاں کہاں تک ایک ’معقول حرکت‘ کہی جانے کے قابل ہے، محتاجِ بیان نہیں۔ پھر بھی ہم وہ امت ہیں جو کسی مسئلہ کی ’دینی‘ بنیادوں کو، اگر وہ حق ہوں، سب سے پہلے تسلیم کرنے والے ہیں۔ زمین اللہ کی ہے اور وہ جسے چاہے اس کا وارث بنا دے۔ البتہ ہم ہی وہ امت ہیں جو یہود کی مذہبی جعلسازیوں کا پول کھول دینے کیلئے بھی پوری پوری قدرت اور اہلیت اور مستند علمی مصادر اپنے پاس رکھتے ہیں، اور اس پہلو سے بھی ہم ہی دنیا کو وہ حقیقت منکشف کر کے دے سکتے ہیں جسے یہود کی کذب بیانی نے تحریف زدہ کر کے، پچھلی ایک صدی سے، امنِ عالم کو تہس نہس کر دینے کی بنیادبنا رکھا ہے۔ حق یہ ہے ’فلسطینی مسلمان‘ کے ہوتے ہوئے ارضِ قدس پر یہود نہ تو کوئی ’مذہبی‘ حق رکھتے ہیں اور نہ ’قومی و تاریخی‘۔
سیکولر دنیا کی بابت سمجھا جاتا ہے کہ وہ ’قومی و تاریخی‘ حق کو ہی اقوام کے ’دعوائے زمین‘ کی بابت درخور اعتنا سمجھتی ہے، لہٰذا ہم بھی مسئلۂ فلسطین کے قومی وتاریخی پہلو پر ہی پہلے کچھ بات کریں گے، اس کے بعد (آئندہ مضمون میں) یہود کے مذہبی دعویٰ کو روشنی تلے لائیں گے۔
٭٭٭٭٭
دس ہزار سال قبل مسیح میں فلسطین یقینا ایک بستا ہوا ملک تھا، مگر یہ ’ماقبل تاریخ‘ دور اپنی تفصیلات کے معاملہ میں آج نامعلوم ہے۔ دس ہزار سال قبل مسیح کے بعد ادوار کو نطوفی Natufian تہذیب کا دور کہا جاتا ہے مگر ’نطوفیوں‘ کی اصل کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ یہاں اریحا کا تاریخی شہر جو ایک اندازے کے مطابق نو ہزار سال پرانا ہے، اسی تہذیب کے نشانات میں شمار ہوتا ہے۔
کوئی پانچ ہزار سال کے لگ بھگ کی بابت یہ البتہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جزیرۂ عرب سے وقفے وقفے کے ساتھ بہت سے انسانی مجموعے فلسطین کے زرخیز خطوں کی جانب نقل مکانی کر آئے تھے۔ جزیرۂ عرب کے یہ مختلف النسب گروہ، جن میں سامی نسل کے قبائل بھی تھے اور کنعان بن حام کی نسل سے بھی، عمومی طور پر ایک ہی نام سے جانے گئے۔ یا پھر اس پورے دور کو ہی کنعانی دور کہا گیا۔ اس لحاظ سے اس خطہ کے ساتھ عربوں کا تعلق تب سے ہے جب سے تاریخ، انسانی وثائق کا حصہ بننے لگی۔ بائبل کا صحیفہ ’پیدائش‘ جگہ جگہ ارضِ فلسطین کو کنعانیوں کا ملک مانتا ہے، جہاں پر اسحاق اور پھر یعقوب علیہما السلام کو رہنے کیلئے کچھ زمین میسر آئی۔ خود
اسرائیلی، زبان، ثقافت اور رہن سہن کے لحاظ سے ’کنعانیوں‘ کے رنگ میں رنگے گئے۔کنعانیوں نے اس ملک میں 119 شہر قائم کئے، گو یہ واضح ہے کہ کنعانی تہذیب نے بابلی، آرامی، اور فینیقی تہذیب سے بہت کچھ لیا اور اس پر بہت کچھ اضافہ کیا۔
کنعانیوں کے علاوہ یہاں مصریوں نے بے شمار نشانات چھوڑے ہیں۔ بارہ سو سال قبل مسیح یہاں جزیرۂ کریٹ سے فلستی قوم آتی ہے اور غزہ کے جنوبی ساحل کے ساتھ ساتھ بسنے لگتی ہے۔ بعد ازاں دیگر کئی ایک شہروں میں پھیل جاتی ہے۔ کچھ ہی دیر بعد، یہ بھی کنعانی ثقافت کا ہی حصہ بن جاتی ہے۔فلستیوں کے آنے سے یہ خطہ اور بھی ترقی کرتا ہے۔
اسی دوران ہی یہاں ’عبرانیوں‘ کا ایک نہایت چھوٹا خانوادہ آتا ہے۔ بنی اسرائیل کی کل بارہ فیملیاں۔ بلکہ یوسف علیہ السلام کا بیاہ مصر میں جاکر ہوتا ہے۔ تب یہ پورا گھرانہ مصر جا بیٹھتا ہے۔ ’زمین کے مالک‘ جو ہوتے ہیں وہ اس کو چھوڑ کر نہیں جاتے!
انکے ہاں کسی وقت کہا جاتا ہے یہ مصر سے صرف اَسی سال بعد موسیٰ علیہ السلام کی معیت میں فلسطین لوٹ آئے تھے۔ دوسری جانب کہتے ہیں، یہ واپس آئے تو چھ لاکھ تھے بلکہ مرد مرد چھ لاکھ سے اوپر تھے! 80 سال میں ’بارہ گھرانے‘ لاکھوں کو نہیں پہنچتے! یہ صدیوں مصر میں رہے۔ جب تک حقیقتِ اسلام پر قائم رہے تھوڑے ہوتے ہوئے مصر پر حکمران رہے، پھر زیادہ ہوکر غلام ہوئے؛ ان کو یہ بتانے کیلئے کہ ان کا دعویٰ قومی نہیں ہوسکتابلکہ ان کی سب خیر خدا اور اس کے نبیوں کے ساتھ وفاداری اپنا رکھنے میں ہے۔
یہ تمام تر عرصہ فلسطین البتہ فلسطینیوں سے بسا رہتا ہے!
اب واپس آتے ہیں تو نہایت مختصر عرصہ فلسطین کے چند شہروں پر حاکم رہ لینے کے بعد مقامی باشندوں کے ہاتھوں یہ پھر بے گھر کر دیے جاتے ہیں، ان کو بتانے کیلئے کہ مسئلہ ’قومی حق‘ کا ہے اور نہ ’زورِ بازو‘ کا، بلکہ خدائی مشن پورا کرنے کا ہے۔ در بدر پھرتے، تا آنکہ طالوت کے زمانے میں ان کے دن پھرتے ہیں اور خدا کے دو نبیوں داودؑ اور سلیمانؑ کا ساتھ دے کر یہ ایک عرصہ کیلئے پھر آبرومند ہوتے ہیں۔ فلسطین کے اطراف واکناف میں اس قوم کا ڈنکا بجتا ہے تو صرف خدا کے ان دو نبیوں کے زمانے میں، جوکہ لگ بھگ 1000ءتا 850ءقبل مسیح کا زمانہ ہے۔ سلیمان علیہ السلام کے رخصت ہوجانے کے بعد اس کا شیرازہ پھر بکھرنے لگتا ہے۔ ان کی مملکت دو حصوں میں بٹتی ہے۔ یہودہ اور اسرائیل۔ یہ وہ زمانہ ہے جب یہی قوم جو یہاں حق کے قیام کیلئے برپا کی گئی تھی، تاریخ کا بدترین فساد برپا کرتی ہے۔ تا آنکہ چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کا شہنشاہ بخت نصر ان پر تاریخ کی بدترین تباہی لاتا ہے۔ یہ بھاری تعداد میں ذلت کی موت مرتے ہیں اور باقی کے لوگ اسیر ہو کر بابل لے جائے جاتے ہیں، کہ قبطیوں کی بجائے اب بابلیوں کو ’غلاموں‘ کی ضرورت تھی!
فلسطین پھر اپنے باشندوں کے ساتھ آباد رہ جاتا ہے! تاآنکہ 539 ق م میں فارسی شہنشاہ سائرس ان کے لئے پروانۂ آزادی جاری کرتا ہے اور ان کو فلسطین لوٹنے کی اجازت مرحمت فرماتا ہے۔رہا یہ خطہ تو اس پر فارسی شہنشاہت، اور بعد ازاں 330 ق م میں یہاں پر سکندر اعظم کا اقتدار قائم ہوجاتا ہے۔ تا آنکہ 63 ق م میں یہاں رومیوں کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ اس سارا عرصہ البتہ اس کے باشندے وہی رہتے ہیں جو ہمیشہ سے تھے۔ اسرائیلیوں کے نکلنے سے یہ علاقہ کبھی خالی ہوا اور نہ ان کے یہاں سکونت اختیار کر جانے سے کبھی آبادیوں کے گنجان ہوجانے کی شکایت ہوئی!
چڑھتے سورج کے پجاری، یہودیوں سے رومیوں کی جتنی کاسہ لیسی ہوسکتی ہے اتنی کرتے ہیں۔ زکریا اور یحییٰ علیہما السلام ایسے انبیاءکو قتل کرتے ہیں بلکہ اپنے تئیں عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرتے ہیں۔ تا آنکہ ان کا فساد حد سے بڑھ جاتا ہے تو خدا کا کرنا رومی بھی ان پر غضب ناک ہوجاتے ہیں۔ 77 ءمیں رومی بادشاہ ٹیٹس ان پر خدا کے قہر کا کوڑا ثابت ہوتا ہے۔ رومی جی بھر کر
یہودیوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔ تب سے آج تک فلسطین میں یہودی نہیں ملتے۔ دو ہزار سال سے دربدر پھرتے ہیں۔ جبکہ فلسطین مسلسل اپنے باشندوں سے آباد رہتا ہے۔
تا آنکہ تین صدی بعد رومن خود بھی عیسائی ہو جاتے ہیں، جوکہ یہودیوں پر نئی آفت لے آنے کا ایک خوفناک پیش خیمہ بنتا ہے۔ عیسائیوں کے لئے مسیح علیہ السلام نبی نہیں بلکہ خدائی کا مرتبہ رکھتے تھے۔ اتنی بڑی اور بے دید اور طاقتور قوم کے ’خدا‘ کو مارنے والی قوم کیونکر اس کے قہر سے بچی رہ سکتی تھی؟! یہود کیلئے دنیا بھر میں کہیں پر چھپ کر بیٹھنا اب تو بالکل ہی دوبھر ہوگیا تھا۔ ’ارضِ میعاد‘ کو بھلا اب کون یاد رکھتا!؟
پس واضح رہے، ان کی دربدری نبوت محمدی کے دور سے شروع نہیں ہوئی۔ نہ ہی مسلمان اس نام نہاد ’سام دشمنی‘ سے کسی بھی دور کے اندر واقف رہے تھے۔ ہٹلر صرف آج جا کر بدنام ہوا، یورپی اقوام کی جب سے مسیحیت کے ساتھ نسبت ہوئی یہود کیلئے اسی دن سے قیامت کھڑی ہوئی رہی ہے۔ عالم عیسائیت کی یہودیوں پر یہ ’کرم فرمائی‘ بیسویں صدی تک جاری رہی۔ جو فرق اس وقت دیکھنے میں آرہا ہے اس ’چولی دامن‘ کی تاریخ چند عشروں سے زیادہ نہیں۔
غرض دورِ مسیح سے اِن کا پودا یہاں سے اکھاڑا گیا اور اس کو دوبارہ یہاں لگنا پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔
بعض تاریخ دانوں نے حساب لگایا ہے، یہودیوں کا فلسطین میں کلی اور زیادہ تر جزوی اقتدار ملا جلا کر چار سو سال سے زیادہ نہیں بنتا۔ البتہ اب دوہزار سال سے یہ مسلسل زمانے بھر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ آج جا کر ’جمہوریت‘ اور ’آزادی‘ کے اس دور میں یہ برطانیہ کے کندھوں پر سوار ہوکر فلسطین آتے ہیں اور برطانوی حمایت اور بندوق کے زور پر ایک ہنستی بستی، صدیوں سے آباد قوم سے، اپنے ’آباءکی جاگیر‘ کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں! ملک کے باشندوں کو خیمہ بستیوں میں ٹھونس دیتے ہیں اور ایک بڑی تعداد کو جلاوطن ہوجانے پر مجبور کردیتے ہیں! یورپ اور امریکہ ’ارضِ میعاد‘ میں اس یہودی درندگی پر تالیاں پیٹتے ہیں، ان کیلئے اسلحہ اور دولت کی بوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں، اقوام متحدہ کے ایوانوں میں اس ناجائز بچے کو ہر جگہ انگلی سے لگائے پھرتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح عالمی برادری اس سے مانوس ہوجائے اور اس کو ’تسلیم‘ بھی کرلے! فلسطینیوں پر یہ جتنا ظلم ڈھا لے کبھی ٹس سے مس نہ ہوں گے، جس وقت البتہ اِس ’منظورِ نظر‘ کیلئے خطہ میں کوئی مسئلہ بنتا نظر آئے تو ’قیامِ امن‘ کیلئے بھاگے چلے آئیں گے۔
یہ دو ہزار سال تک ملک ملک کی خاک چھانتے رہے۔ جبکہ فلسطین کے باشندوں نے ایک دن کیلئے اپنا ملک نہیں چھوڑا۔ فلسطین میں بسنے والی اقوام ان سے پہلے سے یہاں آباد ہیں اور اس سارا عرصہ یہیں رہتی رہی ہیں۔ بیس صدیاں پیشتر یہودیوں کو یہاں سے نکالا گیا تھا تو اس وقت بھی یہ پاپ ’فلسطینیوں‘ نے نہیں کیا تھا کہ اس کی سزا ان کو خیمہ بستیوں اور بے خانمائیوں کی صورت میں آج جا کر دی جائے۔ بیس صدیاں پہلے یورپ کے رومنوں نے ان کو یہاں سے بھگایا تھا اور اب بیس صدیاں بعد یورپ کے انگریزوں نے ان کو یہاں لا بسایا۔ صدیوں کے یہ طفیلی parasites یوں جا کر انگریز کے طفیل ایک بستے بساتے ملک کے ’وارث‘ ہوئے اور ملک کے اپنے باشندے در بدر! اقوام متحدہ کے انسانی قواعد کی روسے یہ وہاں کے رکھوالے البتہ وہ جو صدیوں سے اس گھر کے مالک رہے وہ اب ’باغی‘ اور ’دہشت گرد‘ اور ’امن کیلئے خطرہ‘!
برطانیہ بہادر جو آئرش باشندوں کو ان کا اپنا گھر اور ان کے اپنے باپ کی جاگیر واپس کرنے پر کبھی تیار نہ ہوا تھا، کس دریادلی کے ساتھ فلسطینیوں کے ملک پر پولینڈ، جرمن، آسٹریا اور بیلجئم کے یہودیوں کا حق تسلیم کررہا تھا! بالفور ڈکلیریشن کی رو سے ملکۂ برطانیہ سرزمین فلسطین پر یہودیوں کے حقِ واپسی کو کس ’احترام اور ہمدردی‘ کی نگاہ سے دیکھتی تھیں! یہی ’ہمدردی‘ کی
نظر عالمی توازنِ طاقت کے ساتھ ہی پھر برطانوی تاج سے امریکی انتظامیہ کو منتقل ہوجاتی ہے۔ ’آباءکی قبریں‘ اگر ایسی ہی کوئی دلیل ہے تو اس سے کہیں واضح حق تو پھر امریکہ پر ریڈ انڈینز کا بنتا ہے، جن کا وہاں سے ایک بڑی سطح پر اور نہایت بے رحمی کے ساتھ اور وہ بھی امریکیوں کے ہاتھوں خاتمہ ہوئے ابھی چند صدیوں سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور جوکہ ہزاروں سال تک اس ملک کے بلا شرکت غیرے مالک رہے تھے۔ کیا امریکی جو فلسطین پر اسرائیل کا ’آبائی حق‘ مانتے ہیں، خود اپنے ملک پر ریڈ انڈینز کا یہ حق بھی تسلیم کریں گے؟! اور کیا اندلس پر عربوں کا یہ حق بھی مان لیں گے، جنہیں یہاں سے نہایت ظلم اور ناانصافی کے ساتھ بے دخل ہوئے ابھی صرف پانچ سوسال ہوئے ہیں؟!
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔