حامد کمال الدین
عرب عمومی طور پر اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کے ساتھ نسبت رکھتے ہیں، جس کیلئے اصطلاحی طور پر ’عرب مستعربہ‘ کا لفظ مستعمل ہے۔ اسرائیلؑ (یعقوب علیہ السلام کا لقب) سام کی نسل سے ہیں تو اسماعیل ؑ بھی سام ہی کی نسل سے ہیں۔ ابراہیمؑ کے حق کی بات ہے یا سامی تخم میں اگر کوئی خاص فضیلت پائی جاتی ہے تو وہ دونوں جانب برابر ہے۔ فلسطین میں آباد عربوں کی ایک بڑی تعداد اسماعیلؑ سے ہی منسوب ہے اور اس کے علاوہ وہ کسی اور نسبت سے واقف نہیں۔ مگر یہاں اگر کوئی دوسری اجناس بھی ہیں جو ابراہیمؑ کا تخم نہیں تو آج وہ ابراہیمؑ کے دین پر ہیں! ابراہیمؑ بہر حال ایک سمت اور ایک راستہ تھا: اِن اِبراھیم کان أمۃ!!!
بعثت محمدی کے ساتھ ارض فلسطین کے اندر، بلکہ دنیا کے ایک بڑے خطے کے اندر، ایک نہایت عظیم الشان فرق رونما ہوچکا تھا۔ فلسطین کے کنعانی، عیلامی، فلستی وغیرہ وغیرہ سب کی سب بت پرست اقوام تھیں، جن کے بالمقابل، قبل مسیح ادوار میں، بنی اسرائیل کو انبیاءکی معیت حاصل رہی تھی، اور اسی وجہ سے نصرت خداوندی کا استحقاق بھی۔ محمد ﷺ کہ رحمۃ للعالمین تھے، ان کنعانیوں، عیلامیوں، آرامیوں، فلستیوں، فینیقیوں اور موآبیوں سب کے لئے ذریعۂ ہدایت بن گئے اور یہ سب کی سب اقوام دین توحید کی علمبردار بنیں۔ پورا فلسطین ہمیشہ کیلئے اب اذانوں کا دیس تھا جہاں سب کے سب بت خانے ان اقوام کے اپنے ہاتھوں توڑ دیے گئے اور ان سب اقوام کو مسجد اقصیٰ میں قدم سے قدم ملا کر خدائے واحد کی بندگی کرنا اور ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سمیت سب کے سب انبیاءکے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لینا نصیب ہوا۔ دور محمدی، تاریخ کا جدید ترین عہد تھا جس کے حقائق ہی سراسر اور تھے، جبکہ یہ ظالم اسی بند ذہنی کے اسیر!!!
کس قدر ترس آتا ہے امریکہ میں جگہ جگہ بائبل کے اسٹڈی سرکلوں میں شرکت کیلئے آئے ہوئے ’خردمندوں‘ پر، جب وہ فلسطین کے حوالے سے ’اسرائیلیوں‘ اور ’کنعانیوں‘ کو آج بھی اُسی سیاق میں پڑھ رہے ہوتے ہیں جس سیاق میں کبھی انبیاءکے صحیفوں میں یہ باتیں بیان ہوئی ہوں گی! دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی، اور یہ جہاں تھے وہیں کھڑے ہیں! صرف یہودی نہیں بلکہ آج کے بنیاد پرست عیسائی بھی۔ یہ ابھی تک دنیا کو اسی یہودی آنکھ سے دیکھنے پر مصر ہیں جب فلسطین کے اندر ’غیر اسرائیلی‘ کا لفظ ’کافر‘ اور ’بت پرست‘ کا ہی مترادف ہوا کرتا تھا! امریکہ اور یورپ کے یہ سب بھلے مانس تاریخ کے اس ’میوزیم‘ سے حقائق کی دنیا میں نکل آنے کیلئے تیار ہی نہیں۔ یہ نبوتِ محمد کا زمانہ ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو سہی، باہر کتنا بڑا سورج نکل آیا ہے! فلسطین تو سارے کا سارا اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتا ہے اور ابراہیم، یعقوب، یوسف، موسیٰ، داود اور عیسیٰ علیہم السلام اور محمد ﷺ پر دل و جان سے فدا ہوتا ہے۔ اسی لئے تو خدا نے اقصیٰ والی انبیاءکی تاریخی جائے نماز پچھلے ڈیڑھ ہزار سال سے ان کے سپرد کر رکھی ہے۔ فلسطین کے نگر نگر، ڈیڑھ ہزار سال سے اذان اور تکبیراتِ خداوندی ہی کی صدا بلند ہوتی ہے۔ یہاں کا ہر ہر محلہ ہر چند ساعت بعد صفیں باندھ کر خدائے واحد کو پوجتا اور دن میں پانچ بار ابراہیمؑ کے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ انبیاءکی یہاں اب وہ عزت ہوتی ہے کہ دلوں میں بستے ہیں۔ ایک ایک کیلئے ”علیہ
السلام“ سے کم کوئی لقب نہیں۔ ہر ہر نبی کیلئے پورے فلسطین کی زبان پر درود اور تسلیمات! یہاں ’اسرائیلیوں‘ کے سوا اب ’کافر‘ کہاں!!!!؟
کل کے بت پرست کنعانی آج کے موحد، مومن، فرماں بردار، انبیاءکے پیروکار، مسجد اقصیٰ کے نمازی، قرآن کے قاری.. اور کل جو انبیاءکے نسبت یافتگان رہے تھے وہ آج انبیاءکے کافر، مسیحؑ کے منکر، محمد ﷺ کے گستاخ، خدا کے دشمن، متکبر، گھمنڈی، حیلہ باز اور مفسدین فی الارض!
خدا کہ ”حق“ اور ”عدل“ نام رکھتا ہے، ’ایمان‘ اور ’اعمال‘ کو دیکھے یا ’نسلی تعلق‘ کو؟؟؟!!
حق یہ ہے کہ یہود دنیا کے اندر نسل پرستی کے بانی ہیں۔ آپ ان کے دعوے دیکھیں، ان کی ذہنیت کا جائزہ لیں، اور خصوصاً کبھی ان کی تلمود پڑھیں، تو معاذ اللہ یہ خدا کو بھی اسی نسل پرستی کے مذہب پر سمجھتے ہیں!
ان کے ہاں ٹیپ کا مصرعہ ہے کہ خدا نے یعقوب علیہ السلام کو سرزمین قدس دے ڈالی تھی۔ مگر ان کی اپنی روایات سے ثابت ہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے کہ یعقوب علیہ السلام خدا سے سرزمین قدس لے کر مصر نقل مکانی کر گئے تھے! وہیں پر فوت ہوئے اور وہیں پر نسلیں چھوڑیں۔ اس کا یہ جو بھی جواب دیں مگر اس سے یہ ضرور ثابت ہوگا کہ خدا کا یہ وعدہ کسی خاص وقت اور خاص شروط اور حدود سے مقید تھا، اور یہی ہم مسلمانوں کا موقف ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ خاص قیود اور حدود کے اندر خدا نے مومنینِ بنی اسرائیل سے قدس کی پاک سرزمین میں تمکین کا وعدہ فرمایا تھا۔ موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے متصل بعد یوشع بن نون کے دور میں اور پھر داود و سلیمان علیہما السلام کے دور میں اور ان کے مابین اور ان کے بعد کے کچھ جزوی ادوار میں کہ جب انہوں نے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کیا، خدا اپنا یہ عہد پورا کرتا رہا۔ گو یہ خدا کے ساتھ بار بار عہد شکنی کرتے رہے اور خدا ان کی نصرت سے دستکش ہو کر بار بار ان کو خبردار کرتا رہا کہ ’نسلی برتری‘ اس کے دین میں نہیں۔ آخر یہ خدا کے آخری انبیاءکے ساتھ سیدھا سیدھا کفر کر لینے کے بعد ہمیشہ کیلئے راندۂ درگاہ ٹھہرے۔ تب سے یہ دنیا میں ذلت اور عبرت کا نشان ہیں نہ کہ کسی خدائی عہد کا ثبوت!
ادوارِ ماضی میں خدا سے اِن کو کچھ قربت تھی تو وہ اس حقیقت کے دم سے کہ یہ انبیاءکے مومن جبکہ باشندگانِ فلسطین خدا اور نبیوں کے منکر بت پرست۔مگر خدا کی آیات کو جھٹلانے اور نبیوں کا خون کرنے کے مجرم ہوکر، اور پھر خصوصا عیسیٰ بن مریمؑ اور پھر خاص طور پر محمد ﷺ کے ساتھ کفر کر لینے کے بعد، کونسا خدائی عہد اور کونسا وعدۂ زمین؟! سوائے ایک عہد کے کہ یہاں دنیا میں ذلت کے جوتے اور آخرت میں عذابِ الیم!!!
جبکہ وہ جن کے کفر کے مقابلے پر کبھی یہ ایمان اور خدا آشنائی کی برتری رکھتے تھے.. ان کے مقابلے پر اپنی نسل پرستی اور ’امیوں‘ سے حسد کے سبب، نہ صرف یہ اپنی اس دولتِ امتیاز سے محروم کر دیے گئے بلکہ وہ ”دولتِ ایمان“ ہی نہایت وافر صورت میں ان ’امیوں‘ کو مل گئی جو زمانے بھر میں اب خدا کے نام کی پاسبانی کرتے ہیں اور خدا کی توحید اور خدا کی تعظیم اور کبریائی کیلئے ڈیڑھ ہزار سال سے دنیا کے اندر برسرِ جہاد ہیں، براعظموں کے بر اعظم بتوں کی پلیدی سے پاک کر دینے کے کامیاب مشن پر ہیں اور جہان کے اندر نہایت اعلیٰ قدریں قائم کرنے کا امتیاز رکھتے ہیں!!!
وہ تو خدا ہے، زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے اور مردہ سے زندہ کو! سارا فضل اسی کے پاس ہے، اور وہ بے نیاز جس کو چاہے بخشے!!! نبوت محمد کی صورت، زمین پر یہ خیرات بے حد و حساب بانٹی گئی اور زمانوں کے بے نور صدیوں کے لق ودق لمحوں میں روشن اور شاداب ہوئے! اور تو اور، کیا کوئی یقین کرسکتا ہے ہند کے سومناتوں میں بستے ہوئے ہمارے مقدر جاگے!!!.. پر اس بدقسمتی پر کیا کہیے، اس بے مثال باران رحمت کا وقت آیاتو صدیوں کے واقف، کبر کے بھرے
دل اس کا کوئی اثر قبول کرنے سے انکار کر گئے اور چٹیل کے چٹیل رہنے پر ہی مصر ہوئے! یہاں سے زمانہ بالکل ہی ایک نیا موڑ مڑ گیا، پیچھے رہنے والے ہمیشہ کیلئے پیچھے رہ گئے اور دنیا میں ’نئی حقیقتیں‘ پورے زور اور قوت سے راج کرنے لگیں!
سورۂ بقرۃ میں بنی اسرائیل کا قصہ شروع کرنے سے پہلے خدا نے ابلیس کا قصہ سنایا؛ حسد، تکبر ، خود پسندی، کفر، ہٹ دھرمی اور خدا کے فیصلے پر معترض ہونے کا انجام نہایت عبرت ناک ہے۔ توبہ کے دروازے تک بند ہوجاتے ہیں! معاذ اللہ، خدا سے ٹھن جائے تو مخلوق سے بیر کیا بڑی بات ہے! اور اگر ایسے بغض بھرے کو فساد فی الارض کیلئے کسی وقت ’چھوٹ‘ دے دی جائے تو زمین میں رہنے والوں کو کیا کچھ دیکھنے کیلئے تیار رہنا چاہیے، سورہ بقرہ تا مائدہ پڑھ لیجئے اور بتائیے اس شر سے خبردار کر دینے کے معاملہ میں کونسی بات ذکر ہوجانے سے رہ گئی ہے!؟ دنیا ”ہدایت“ کیلئے قرآن نہیں پڑھتی تو بھی ’بقائے عالم‘ کیلئے مخلص طبقے اس شر سے آگاہ ہونے کے معاملہ میں آخری آسمانی دستاویز سے کبھی مستغنی نہ ہوں گے۔
عرب عمومی طور پر اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کے ساتھ نسبت رکھتے ہیں، جس کیلئے اصطلاحی طور پر ’عرب مستعربہ‘ کا لفظ مستعمل ہے۔ اسرائیلؑ (یعقوب علیہ السلام کا لقب) سام کی نسل سے ہیں تو اسماعیل ؑ بھی سام ہی کی نسل سے ہیں۔ ابراہیمؑ کے حق کی بات ہے یا سامی تخم میں اگر کوئی خاص فضیلت پائی جاتی ہے تو وہ دونوں جانب برابر ہے۔ فلسطین میں آباد عربوں کی ایک بڑی تعداد اسماعیلؑ سے ہی منسوب ہے اور اس کے علاوہ وہ کسی اور نسبت سے واقف نہیں۔ مگر یہاں اگر کوئی دوسری اجناس بھی ہیں جو ابراہیمؑ کا تخم نہیں تو آج وہ ابراہیمؑ کے دین پر ہیں! ابراہیمؑ بہر حال ایک سمت اور ایک راستہ تھا: اِن اِبراھیم کان أمۃ!!!
بعثت محمدی کے ساتھ ارض فلسطین کے اندر، بلکہ دنیا کے ایک بڑے خطے کے اندر، ایک نہایت عظیم الشان فرق رونما ہوچکا تھا۔ فلسطین کے کنعانی، عیلامی، فلستی وغیرہ وغیرہ سب کی سب بت پرست اقوام تھیں، جن کے بالمقابل، قبل مسیح ادوار میں، بنی اسرائیل کو انبیاءکی معیت حاصل رہی تھی، اور اسی وجہ سے نصرت خداوندی کا استحقاق بھی۔ محمد ﷺ کہ رحمۃ للعالمین تھے، ان کنعانیوں، عیلامیوں، آرامیوں، فلستیوں، فینیقیوں اور موآبیوں سب کے لئے ذریعۂ ہدایت بن گئے اور یہ سب کی سب اقوام دین توحید کی علمبردار بنیں۔ پورا فلسطین ہمیشہ کیلئے اب اذانوں کا دیس تھا جہاں سب کے سب بت خانے ان اقوام کے اپنے ہاتھوں توڑ دیے گئے اور ان سب اقوام کو مسجد اقصیٰ میں قدم سے قدم ملا کر خدائے واحد کی بندگی کرنا اور ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سمیت سب کے سب انبیاءکے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لینا نصیب ہوا۔ دور محمدی، تاریخ کا جدید ترین عہد تھا جس کے حقائق ہی سراسر اور تھے، جبکہ یہ ظالم اسی بند ذہنی کے اسیر!!!
کس قدر ترس آتا ہے امریکہ میں جگہ جگہ بائبل کے اسٹڈی سرکلوں میں شرکت کیلئے آئے ہوئے ’خردمندوں‘ پر، جب وہ فلسطین کے حوالے سے ’اسرائیلیوں‘ اور ’کنعانیوں‘ کو آج بھی اُسی سیاق میں پڑھ رہے ہوتے ہیں جس سیاق میں کبھی انبیاءکے صحیفوں میں یہ باتیں بیان ہوئی ہوں گی! دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی، اور یہ جہاں تھے وہیں کھڑے ہیں! صرف یہودی نہیں بلکہ آج کے بنیاد پرست عیسائی بھی۔ یہ ابھی تک دنیا کو اسی یہودی آنکھ سے دیکھنے پر مصر ہیں جب فلسطین کے اندر ’غیر اسرائیلی‘ کا لفظ ’کافر‘ اور ’بت پرست‘ کا ہی مترادف ہوا کرتا تھا! امریکہ اور یورپ کے یہ سب بھلے مانس تاریخ کے اس ’میوزیم‘ سے حقائق کی دنیا میں نکل آنے کیلئے تیار ہی نہیں۔ یہ نبوتِ محمد کا زمانہ ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو سہی، باہر کتنا بڑا سورج نکل آیا ہے! فلسطین تو سارے کا سارا اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتا ہے اور ابراہیم، یعقوب، یوسف، موسیٰ، داود اور عیسیٰ علیہم السلام اور محمد ﷺ پر دل و جان سے فدا ہوتا ہے۔ اسی لئے تو خدا نے اقصیٰ والی انبیاءکی تاریخی جائے نماز پچھلے ڈیڑھ ہزار سال سے ان کے سپرد کر رکھی ہے۔ فلسطین کے نگر نگر، ڈیڑھ ہزار سال سے اذان اور تکبیراتِ خداوندی ہی کی صدا بلند ہوتی ہے۔ یہاں کا ہر ہر محلہ ہر چند ساعت بعد صفیں باندھ کر خدائے واحد کو پوجتا اور دن میں پانچ بار ابراہیمؑ کے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ انبیاءکی یہاں اب وہ عزت ہوتی ہے کہ دلوں میں بستے ہیں۔ ایک ایک کیلئے ”علیہ
السلام“ سے کم کوئی لقب نہیں۔ ہر ہر نبی کیلئے پورے فلسطین کی زبان پر درود اور تسلیمات! یہاں ’اسرائیلیوں‘ کے سوا اب ’کافر‘ کہاں!!!!؟
کل کے بت پرست کنعانی آج کے موحد، مومن، فرماں بردار، انبیاءکے پیروکار، مسجد اقصیٰ کے نمازی، قرآن کے قاری.. اور کل جو انبیاءکے نسبت یافتگان رہے تھے وہ آج انبیاءکے کافر، مسیحؑ کے منکر، محمد ﷺ کے گستاخ، خدا کے دشمن، متکبر، گھمنڈی، حیلہ باز اور مفسدین فی الارض!
خدا کہ ”حق“ اور ”عدل“ نام رکھتا ہے، ’ایمان‘ اور ’اعمال‘ کو دیکھے یا ’نسلی تعلق‘ کو؟؟؟!!
حق یہ ہے کہ یہود دنیا کے اندر نسل پرستی کے بانی ہیں۔ آپ ان کے دعوے دیکھیں، ان کی ذہنیت کا جائزہ لیں، اور خصوصاً کبھی ان کی تلمود پڑھیں، تو معاذ اللہ یہ خدا کو بھی اسی نسل پرستی کے مذہب پر سمجھتے ہیں!
ان کے ہاں ٹیپ کا مصرعہ ہے کہ خدا نے یعقوب علیہ السلام کو سرزمین قدس دے ڈالی تھی۔ مگر ان کی اپنی روایات سے ثابت ہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے کہ یعقوب علیہ السلام خدا سے سرزمین قدس لے کر مصر نقل مکانی کر گئے تھے! وہیں پر فوت ہوئے اور وہیں پر نسلیں چھوڑیں۔ اس کا یہ جو بھی جواب دیں مگر اس سے یہ ضرور ثابت ہوگا کہ خدا کا یہ وعدہ کسی خاص وقت اور خاص شروط اور حدود سے مقید تھا، اور یہی ہم مسلمانوں کا موقف ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ خاص قیود اور حدود کے اندر خدا نے مومنینِ بنی اسرائیل سے قدس کی پاک سرزمین میں تمکین کا وعدہ فرمایا تھا۔ موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے متصل بعد یوشع بن نون کے دور میں اور پھر داود و سلیمان علیہما السلام کے دور میں اور ان کے مابین اور ان کے بعد کے کچھ جزوی ادوار میں کہ جب انہوں نے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کیا، خدا اپنا یہ عہد پورا کرتا رہا۔ گو یہ خدا کے ساتھ بار بار عہد شکنی کرتے رہے اور خدا ان کی نصرت سے دستکش ہو کر بار بار ان کو خبردار کرتا رہا کہ ’نسلی برتری‘ اس کے دین میں نہیں۔ آخر یہ خدا کے آخری انبیاءکے ساتھ سیدھا سیدھا کفر کر لینے کے بعد ہمیشہ کیلئے راندۂ درگاہ ٹھہرے۔ تب سے یہ دنیا میں ذلت اور عبرت کا نشان ہیں نہ کہ کسی خدائی عہد کا ثبوت!
ادوارِ ماضی میں خدا سے اِن کو کچھ قربت تھی تو وہ اس حقیقت کے دم سے کہ یہ انبیاءکے مومن جبکہ باشندگانِ فلسطین خدا اور نبیوں کے منکر بت پرست۔مگر خدا کی آیات کو جھٹلانے اور نبیوں کا خون کرنے کے مجرم ہوکر، اور پھر خصوصا عیسیٰ بن مریمؑ اور پھر خاص طور پر محمد ﷺ کے ساتھ کفر کر لینے کے بعد، کونسا خدائی عہد اور کونسا وعدۂ زمین؟! سوائے ایک عہد کے کہ یہاں دنیا میں ذلت کے جوتے اور آخرت میں عذابِ الیم!!!
جبکہ وہ جن کے کفر کے مقابلے پر کبھی یہ ایمان اور خدا آشنائی کی برتری رکھتے تھے.. ان کے مقابلے پر اپنی نسل پرستی اور ’امیوں‘ سے حسد کے سبب، نہ صرف یہ اپنی اس دولتِ امتیاز سے محروم کر دیے گئے بلکہ وہ ”دولتِ ایمان“ ہی نہایت وافر صورت میں ان ’امیوں‘ کو مل گئی جو زمانے بھر میں اب خدا کے نام کی پاسبانی کرتے ہیں اور خدا کی توحید اور خدا کی تعظیم اور کبریائی کیلئے ڈیڑھ ہزار سال سے دنیا کے اندر برسرِ جہاد ہیں، براعظموں کے بر اعظم بتوں کی پلیدی سے پاک کر دینے کے کامیاب مشن پر ہیں اور جہان کے اندر نہایت اعلیٰ قدریں قائم کرنے کا امتیاز رکھتے ہیں!!!
وہ تو خدا ہے، زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے اور مردہ سے زندہ کو! سارا فضل اسی کے پاس ہے، اور وہ بے نیاز جس کو چاہے بخشے!!! نبوت محمد کی صورت، زمین پر یہ خیرات بے حد و حساب بانٹی گئی اور زمانوں کے بے نور صدیوں کے لق ودق لمحوں میں روشن اور شاداب ہوئے! اور تو اور، کیا کوئی یقین کرسکتا ہے ہند کے سومناتوں میں بستے ہوئے ہمارے مقدر جاگے!!!.. پر اس بدقسمتی پر کیا کہیے، اس بے مثال باران رحمت کا وقت آیاتو صدیوں کے واقف، کبر کے بھرے
دل اس کا کوئی اثر قبول کرنے سے انکار کر گئے اور چٹیل کے چٹیل رہنے پر ہی مصر ہوئے! یہاں سے زمانہ بالکل ہی ایک نیا موڑ مڑ گیا، پیچھے رہنے والے ہمیشہ کیلئے پیچھے رہ گئے اور دنیا میں ’نئی حقیقتیں‘ پورے زور اور قوت سے راج کرنے لگیں!
سورۂ بقرۃ میں بنی اسرائیل کا قصہ شروع کرنے سے پہلے خدا نے ابلیس کا قصہ سنایا؛ حسد، تکبر ، خود پسندی، کفر، ہٹ دھرمی اور خدا کے فیصلے پر معترض ہونے کا انجام نہایت عبرت ناک ہے۔ توبہ کے دروازے تک بند ہوجاتے ہیں! معاذ اللہ، خدا سے ٹھن جائے تو مخلوق سے بیر کیا بڑی بات ہے! اور اگر ایسے بغض بھرے کو فساد فی الارض کیلئے کسی وقت ’چھوٹ‘ دے دی جائے تو زمین میں رہنے والوں کو کیا کچھ دیکھنے کیلئے تیار رہنا چاہیے، سورہ بقرہ تا مائدہ پڑھ لیجئے اور بتائیے اس شر سے خبردار کر دینے کے معاملہ میں کونسی بات ذکر ہوجانے سے رہ گئی ہے!؟ دنیا ”ہدایت“ کیلئے قرآن نہیں پڑھتی تو بھی ’بقائے عالم‘ کیلئے مخلص طبقے اس شر سے آگاہ ہونے کے معاملہ میں آخری آسمانی دستاویز سے کبھی مستغنی نہ ہوں گے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔