Pages

Friday, December 13, 2013

مسجد اقصی کی صدا

اے مسلم!
ذرا ہوش کر تو کہاں پہ کھویا ہے
میں کالی شب کی ظلمت میں
سو سو کر اکتائی ہوں اور تو کیونکر
بے فکر ہو کہ سویا ہے؟
میرے لیے نہیں تو اپنے ہی لیے
کچھ سوچ!تیرا مجھ سے کیا رشتہ ہے؟
اس رشتے کا کچھ پاس کرو
اس رشتے کی کوئی لاج رکھو
شاید کہ پھر ہو جائے صبح
اور چمکے خورشید آزادی
آہ!وہ قبلہ اول کہ جس پر
کالی شب کے گھٹا ٹوپ اندھیرے
اس بات کے منتظر ہیں کہ
شاید پھر صبح ہو گی
آہ! وہ مسجد اقصی سوچتی ہے کہ
کبھی تو کوئی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور
کبھی تو کوئی صلاح الدین آئے گا
اور اس کالی خونی شب سے مجھے نجات دلائے گا
اور مسجد اقصی پکارتی ہے کہ اے مسلم!
تیرے بن نہیں آئے گی روشنی
نہیں آئے گی زندگی

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔